• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
سال کے آخری دن کے آخری گھنٹے اور نئے سال کے ابتدائی لمحات یوں جشن کی طرح منائے جاتے ہیں گویا یہ لمحات ہر مہینے، ہفتے یا روزانہ کسی طرح مختلف انداز میں طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ یوں تو یہ سب ہم انسانوں کی اپنی بنائی ہوئی State and mind یا ذہنی کیفیت ہے جو اب اتنی کمرشل ہوچکی ہے کہ کاروباری دنیا کے عام آدمی کے ذہن پر مکمل جادو چل چکا ہے، یہ تہواری ہفتہ دراصل شاپنگ کا ہفتہ ہوتا ہے، لوگ کرسمس اور نیو ایئر کے انتظار میں کئی مہینوں سے اپنی شاپنگ کو ملتوی کرتے رہتے ہیں، یہ بات صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے، اس اتواری ہفتے کے اور بھی بہت سارے رنگ ہیں۔ پارٹیوں کا سیزن بھی یہی ہفتہ کہلاتا ہے۔ سیاحوں کا بھی سب سے مصروف یہی ہفتہ ہوتا ہے، جب دنیا کے بڑے شہروں میں ہوٹلز تک میں جگہ ملنی مشکل ہوجاتی ہے، جہازوں پر سفر کی ٹکٹیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، البتہ یہی ہفتہ Sales کا ہفتہ بھی کہلاتا ہے۔ کئی اسٹورز تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پہلے 50 کسٹمرز کو مفت یا90فیصد کم قیمت پر اشیاء دیتے ہیں۔ ایسے اسٹورز کے باہر24گھنٹے پہلے ہی لوگ آکر لائن میں لگ جاتے ہیں۔ کئی تو لائن میں ہی اپنے سلیپنگ بیگ بچھا کر رات وہیں گزارتے ہیں، ایسا امریکہ کی کئی ریاستوں سمیت لندن اور دیگر کئی شہروں میں ہوتا ہے۔ یورپ میں شراب کا استعمال خاصہ بڑھ جاتا ہے، دنیا اپنی کیفیت کو ایک رنگین جشن میں بدل لیتی ہے، ایسے میں ان افراد کو بھی یاد کیا جاتا ہے جو گزرے برس میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ یہ بچھڑنے کا صدمہ اور یاد کرنے کا طریقہ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے، پاکستان میں کسی بچھڑنے والے کو اس طرح یاد نہیں کیا جاتا جس طرح انڈیا میں یاد کیا جاتا ہے، اس سے کسی بھی ملک کے گزرے برس کے چہرے کو بھی دیکھا جاتا ہے، پاکستان میں تو کئی علما اس نئے سال کے جشن منانے کے سرے سے ہی خلاف ہیں اور وہ اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ یہ اسلام کی کون سی تعلیمات سے متصادم ہے۔ وہ فن و ادب کے لوگوں کو بھی زیادہ یاد کرنے کے حق میں نہیں ہوتے تھے گوکہ عوام اپنے فنکاروں کے بچھڑنے کو حساس طریقے سے محسوس کرتے ہیں، جس طرح2024ء میں پاکستان کے طلعت حسین، خالد بٹ، تسکین ظفر، عابد کشمیری اور استاد طافو خان وغیرہ کو خصوصی طور پر یاد کرتے ہیںلیکن پاکستان میں کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی بھی اقلیت کے بچھڑنے والوں کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی جاتی، میں نے غور کیا ہے کہ اس حوالے سے انڈیا ہم سے کافی مختلف بھی ہے اور آگے بھی، وہاں بچھڑنے والے ہندو مسلم، سکھ یا پارسی یا کوئی بھی مذہب والا ہو، اسے صرف انڈین کے طور کے ارب پتی جوکہ2024ء میں وفات پاگئے، رتن ٹاٹا ایک پارسی تھے، لیکن گزشتہ ہفتے کی سال نو کی بیشتر تقریبات میں رتن ٹاٹا کو یاد کیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ جو سکھ تھے، ان کی وفات کو بہت محسوس کیا گیا اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پالیسیوں کو انڈیا کی ترقی کی بنیاد قرار دے کر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا، اس طرح استاد ذاکر حسین اور استاد راشد خان جوکہ مسلم تھے، دونوں کا اس دنیا سے چلے جانا بہت محسوس کیا گیا، یہ اس طرح مختلف المذاہب کو فقط انڈین جان کر یاد کرنا ہی سیکولر انڈیا کا روپ ہے گوکہ اب مودی اسے بدرنگ کرنا چاہتا ہے، پاکستان میں اس طرح لوگوں کے کارناموں سے پہلے ان کا مذہب دیکھا جاتا ہے اور انسانیت کے لیے کی جانے والی خدمات کو بعد میں دیکھا جاتا ہے اور مسلمان نہ ہو تو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ اس طرح سے ہم مختلف ممالک اور اقوام کو اپنے ہیرو بنانے کے انداز سے یہ باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں2024ء میں کیسے پرفارم کیا۔ اس لحاظ سے دراصل نیا سال اور پرانے کا اختتام تاسیسی وقت ہوتا ہے۔
یورپ سے سے مزید