• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہراسانی کی ایک نئی شکل: دنیا بھر میں خواتین سیاستدان ڈیپ فیک پورن کا نشانہ

واشنگٹن (اے ایف پی/ جنگ نیوز) امریکا سے لے کر اٹلی، برطانیہ اور پاکستان تک خواتین سیاستدانوں کو اے آئی کی مدد سے بنائی جانے والی ڈیپ فیک پورنوگرافی یا جنسی تصاویر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں خواتین سیاستدان ڈیپ فیک پورنو گرافی کے ملزمان کیخلاف قانونی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں اور اطالوی وزیراعظم نے اپنی ڈیپ فیک پورن بنانے پر دو افراد کیخلاف ایک لاکھ یورو ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے، ماہرین کے مطابق یہ تشویشناک رجحان خواتین کی عوامی زندگی میں شرکت کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر رضامندی سے بننے والے ڈیپ فیکس کی آن لائن تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد نے اس ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر ریگولیٹ کرنے کی کوششوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پنجاب کی وزیر اطلاعات ایک ڈیپ فیک ویڈیو دیکھ کر"شدیدمتاثر " ہوئیں،مینا مجید کو بھی گلے ملتے دکھایا گیا تھا سستے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹولز، بشمول فوٹو ایپس، خواتین کو ڈیجیٹل طور پر برہنہ کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔یہ ذاتی نوعیت کی تصاویر اکثر عوامی حلقے میں موجود خواتین کی ساکھ خراب کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، ان کے کیریئر کو نقصان پہنچاتی ہیں، عوامی اعتماد کو متاثر کرتی ہیں، اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں، کیونکہ یہ تصاویر بلیک میلنگ یا ہراسانی کے لیے سازگار حالات پیدا کر سکتی ہیں۔امریکہ میں، "امریکن سن لائٹ پروجیکٹ" نامی ایک تحقیقاتی گروپ نے کانگریس کے 26 ارکان، جن میں 25 خواتین شامل ہیں، کی ڈیپ فیک پورنوگرافی کی 35,000 سے زائد مثالیں پورنوگرافی ویب سائٹس پر تلاش کیں۔اس کی مثالیں برطانیہ اوراٹلی میں بھی ملتی ہیں،اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی نے ایسےدو افراد کےخلاف ایک لاکھ یورو ہرجانےکا دعویٰ کر رکھا ہے جن پرالزام ہے کہ انہوں نے انکی ڈیپ فیک ویڈیوز بنا ئیں۔
اہم خبریں سے مزید