• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
اکثر حکومتیں اور بڑے تجارتی ادارے اپنے ضروری بیانات جاری کرنے سے پہلے لوگوں کا ردعمل جاننے کی خاطر میٹھی کڑوی خبروں کا ایک مجموعہ عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں تاکہ صحیح وقت پر سامنے لائے گئے حقائق کا بوجھ اٹھانے میں سکت پیداہوسکے۔ 2024 کے اختتام کے قریبی عرصے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا حکومتی معاملات میں بڑھتا ہوا کردار یا پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا بڑھتا ہوا خوشگوار مکالمہ اور وزیراعظم کی تبدیلی کی خبریں ایسی سرگوشیاں ہیں جو طاقت کے مراکز یا سیاسی کارکنوں کی محفلوں اور میڈیا میں توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ اسپیکر ایاز صادق نے پچھلی قومی اسمبلی بھی اچھے طریقے سے چلائی بالخصوص جہاں انکو گنجائش ملی انہوں نے اپوزیشن ارکان کو اہم معاملات پر بات کرنے کیلئے جگہ دی جس کے نتیجہ میں پسماندہ علاقوں سے منتخب ارکان بھی ایشوز پر بات کر سکے جس سے پاکستان کی حقیقی معاشی اور معاشرتی تصویر پاکستانی عوام تک پہنچ سکی اور اسی میانہ روی نے انہیں لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیا۔ سب سے اہم یہ کہ ان کی اسپیکرشپ کے زمانہ میں ’’ٹون ٹریک‘‘ اپروچ ایک بار پھر سردخانہ سے نکل کر ملکی سیاست کے مرکز میں متحرک نظر آنے لگی اور اس اپروچ نے ملکی حالات جن پر بحث و مباحثہ نہیں ہو رہا تھا اور کئی ایشوز پر بات کرنا اپنے لئے مشکلات پیدا کرنے کے مترادف تھا ۔ مثال کے طور پر جس طرح انہوں نے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بات چیت کے ماحول کو Demystify کیا اور ملک کو باور کروایا کہ خان کی پارٹی اور حکومت کے درمیان بات چیت ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ دونوں پاکستانی ادارے ہیں اور ان دونوں نے سیاست بھی اسی ملک میں کرنی ہے۔ سن 24 ء جارہا تھا اور وہ دنیا 25ء کے سپرد کر رہا تھا۔ نئے سال کے اردگرد ہر ملک کے طور طریقوں کے مطابق اہم سیاسی اور معاشی معاملات پر بیانیے جاری کئے جاتے ہیں اور ہر کوئی یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ملتا ہے کہ جانے والا سال ان کے لئے کیا خوشخبری چھوڑ گیا ہے اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا اچھی خبریں لا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی عوام کا کچھ حصہ یہ سمجھتا ہے کہ اسپیکر ایاز صادق کی مقتدر حلقوں میں بڑھتی پذیرائی وزیراعظم کی تبدیلی کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔ نئے سال میں پلنے پوسنے کیلئے سب سے بڑی سرگوشی کہ عمران خان جلد پیرول پر رہا ہو کر بنی گالہ کے اپنے گھر میں رہائش اختیار کرلیں گے عوام کے ایک بہت بڑے طبقہ کیلئےدلی سکون اور مسرت مہیا کرتی ہے۔ یہ افواہ چند ہفتوں سے پاکستانی میڈیا میں چلی آرہی ہے تاہم ابھی تک یہ افواہ حقیقت بننے سے بہت دور ہے اس لئے نہیں کہ ایسا نہیں ہو رہا بلکہ خان کے فدائین کی بڑی تعداد قیدوبند میں پھنسے ہوئے ہیں اور خان انہیں مشکل میں اکیلا چھوڑ کر اپنے لئے مراعات لینے کیلئے اپنے آپ کو تیار نہیں کر سکے ہیں۔ پی ٹی آئی اور تیرہ جماعتی حکومت نے ٹکرائو کا جو سفر اختیار کر رکھا تھا اس کو ملکی مفاد میں ختم ہونا تھا جو اب ہو چکا ہے ۔ اس طرح کی ٹریک ٹو پالیسی جسے طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل ہے کے ذریعہ پی ٹی آئی کو ہرحال میں آن بورڈ رکھ کر ریاست کے معاملات میں اس جماعت کی حصہ داری کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ریاست کی کیامجبوری ہے کہ پی ٹی آئی کو آن بورڈ رکھے؟ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی وہ مسلمہ سیاسی قوت ہے جس کے تعاون کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ حاکمان ملک نے خان کو جیل میں بھی ڈال کر دیکھ لیا مگر ایسے حکومتی فیصلوں کی بنا پر پی ٹی آئی برانڈ پہلے سے بھی زیادہ قیمتی ہو چکا ہے۔ حکومت جو اس جماعت کو ماضی میں شجر ممنوع سمجھتی رہی ہے یہی حکومت پی ٹی آئی کو کبھی غیرملکی ایجنٹ کے طور پر دیکھتی اور نمٹتی رہی کبھی اس جماعت کو ملک دشمن قوتوں کا گڑھ کے نام سے پکارا گیا اور سیاسی غلاظت کی ڈکشنری سے بدترین القابات اس جماعت کے قائدین بالخصوص عمران خان پر انڈیلے گئے مگر زمینی حقائق نے اینٹی پی ٹی آئی پالیسی کو جڑوں سمیت اکھاڑ دیا ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) حکومت بشمول تیرہ دوسری جماعتوں کے نہ ہی کوئی طاقتور آئینی ترامیم کرا سکی ہے اور نہ ہی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو رہی ہےکہ ملک میں ان دو جماعتوں کی مشترکہ حکومت ہے تو پھر حکومت کس کی ہے؟ کے سوال پر لوگ اکثر اس طرح کے جواب دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں یا نظریں اور انگلی آسمان کی طرف اٹھا دیتے ہیں یا یہ کہہ کر کہ ایسے مشکل سوال نہ پوچھیں جان چھڑا لیتے ہیں۔ 25ء کو میدان میں اترے کافی دن ہو چکے ہیں۔ پچھلے سال کے اختتام کی سرگوشیاں آج مختلف ماحول میں اگرچہ ہماری یادوں کا حصہ ہیں۔ مگر اب ہم نئے سال میں داخل ہو چکے ہیں یقیناً لوگوں نے اس موقع پر طے کر لئے ہوں گے افراد، خاندان اور کمیونٹیز گزرے سال کی پرسکون آغوش سے نکل کر 2025میں داخل ہو چکے ہیں جہاں نئے سال کے چیلنجز ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
یورپ سے سے مزید