کینیڈا کے پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیوں کیا؟ حالات نے ایسا کیا پلٹا کھایا کہ ایک کامیاب پرائم منسٹر مشکلات میں گھرتا چلا گیا؟ کیا انہیں انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی کی بددعا لگ گئی یا نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تند و تیز بیانات لڑ گئے؟ ان کی لبرل پارٹی کے اندر سے ایسی مخالفانہ آوازیں کیوں اٹھیں کہ ان کی اپنی نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے بھی استعفیٰ دے دیا؟ ان سوالات پر آنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ 25 دسمبر 1971کو اوٹاوہ میں پیدا ہونے والے، جسٹن ٹروڈو کی سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے جوبرٹش کولمبیا یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں گریجویشن کرنے کے بعد کچھ عرصہ تدریس سے وابستہ رہے جبکہ ان کے والد پئیر ٹروڈو نے پانچ مرتبہ نہ صرف یہ کہ لبرل پارٹی کی قیادت کی بلکہ دو مرتبہ کینیڈا کے پاپولر پرائم منسٹر بھی رہے جسٹن ٹروڈو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ کینیڈا کے واحد سیاستدان ہیں جو اپنے والد کی روایت کو نبھاتے ہوئے دو مرتبہ کینیڈا کے پرائم منسٹر منتخب ہوئے اور دوسرے نوجوان یا کم عمر وزیراعظم کہلائے۔ 2013میں انہیں لبرل پارٹی کا لیڈر چنا گیا اور 2015 کے الیکشن میں جب انہوں نے اپنی پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کیا تو انہیں کینیڈا کا 23 واں پرائم منسٹر منتخب کرلیا گیا۔ یوں وہ اگلے انتخابات میں پھر پرائم منسٹر منتخب ہوئے لیکن اگلے الیکشن میں انکی پارٹی 2015جیسی کامیابی حاصل نہ کر پائی۔
یوں انہیں کنزروٹیو پارٹی کے بالمقابل ایک تیسری نیو ڈیموکریٹک پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا، جس کی قیادت ایک سکھ لیڈر کے ہاتھوں میں تھی، اس پس منظر میں کینیڈا کی سکھ کمیونٹی کے ساتھ ان کا رویہ ضرورت سے زیادہ نرم رہا۔ کینیڈا میں چونکہ سکھ کمیونٹی خاصی تعداد میں آباد ہے جن میں خالصتان تحریک سے وابستہ لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کی جڑیں انڈین پنجاب میں ہوں یا نہ ہوں کینیڈا میں وہ اپنی علیحدگی پسندگی کی جدوجہد خوب کرتے ہیں ۔اندرا گاندھی نے 1984 میں خالصتانی تحریک کو پنجاب سے بڑی حد تک کچل دیا تھا جس کی پاداش میں وہ خود بھی قتل ہوئیں۔اسی پس منظر میں کینیڈا کے خالصتان لبریشن فورس والوں نے 23 جون 1985 کو ٹائم بم کے ذریعے ائیر انڈیا کا طیارہ جو 329 مسافروں کو لے کرمونٹریال سے ممبئی آرہا تھا آئرلینڈ کی فضائی حدود میں اڑا دیا تھا کوئی مسافر زندہ نہیں بچا تھا۔ اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے تعاون سے راجیو گاندھی نے انڈین پنجاب سے علیحدگی پسندی کی اس تحریک کا بڑی حد تک صفایا کردیا تھا لیکن کینیڈا میں کسی نہ کسی صورت یہ لوگ اپنی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں جو انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں موجودہ خرابی کا باعث بنی ہیں۔ 2023کی جی 20 کانفرنس میں شرکت کیلئے جسٹن ٹروڈو دہلی تشریف لائے تو ان کی نریندر مودی کے ساتھ ملاقات خوشگوار نہ رہی تھی۔ دراصل جون 2023 میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو جس طرح برٹش کولمبیا میں گوردوارہ کے باہر قتل کیا گیا اور اس کے خلاف سکھوں نے ٹورنٹو سمیت لندن، میلبورن اور سان فرانسسکو میں مظاہرے بھی کیے جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کر جس طرح اس کی کڑیاں مودی سرکار سے ملائیں بھارتی سفیر اور ایجنٹ پر الزامات عائد کیے اس سے انڈیا کینیڈا تعلقات خرابی بسیار تک چلے گئے کچھ اسی نوع کا معاملہ امریکا میں’’سکھ فار جسٹس‘‘ نامی تنظیم کے سربراہ گروپتونت سنگھ پنوں کے ساتھ بھی ہوا وہ قاتلانہ حملے میں تو بچ گئے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ معاملہ نریندر مودی کے سامنے رکھا اور اس کے شواہد بھی فراہم کیے، یہ بھی واضح رہے کہ نجر کے کیس میں بھی یہ امریکی و برطانوی انٹیلی جنس رپورٹس ہی تھیں جنہوں نے کینیڈین حکومت کو تحقیقات یا الزامات میں مدد دی اس طرح کا ایک حملہ مئی 2023 کو لاہور میں پرمجیت سنگھ پنجواڑہ پر بھی ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا تھا اور برطانیہ میں اوتار سنگھ کھنڈا کو بھی ٹارگٹ کیا گیا تھا واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ را نے اجرتی قاتلوں اور افغانی ہتھیاروں کے ذریعے پاکستان میں چھ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی، تانبا نامی شخص کو بھی نشانہ بنایا گیا اس حوالے سے انڈین میڈیا بالعموم دہشت گردی کے خلاف اسرائیل کی مثال پیش کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے آتنک وادیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں مگر ویسٹرن یا امریکی ذمہ داران کا موقف ہے کہ اسرائیل بھی اپنے دوست ممالک کی ساورنٹی کا احترام کرتا ہے۔ (جاری ہے)