ڈاکٹر نعمان نعیم
اِس امر میں شک نہیں کہ مہنگائی ،تنگ دستی ،غربت و افلاس، بے روزگاری جیسے عوامل نے بہت سے لوگوں کو دست ِ سوال دراز کرنےپر مجبور کر دیا ہے، لیکن محنت کیے بغیر دولت کمانے کے بڑھتے رجحان نے بھیک مانگنے اور گداگری کو ایک انڈسٹری کی شکل دے دی ہے، جس میں ٹھیکے داری نظام کے تحت، گداگروں کی فوج ظفر موج باقاعدہ منظّم طور پر پیسے کماتی ہے۔ ہمارے ملک میں یوں تو بے شمار مسائل ہیں، لیکن گدا گری کے عفریت نے ملک کو بری طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
آج کل مسجدوں، مذہبی مقامات اور دینی اجتماعات کی ایک پہچان گداگروں کا ازدہام اور ایک خاص لَے اور دھن میں ان کی طرف سے سوالیہ کلمات کی تکرار بھی ہے، وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے، مذہبی مقامات کے علاوہ سیاحتی مقامات، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ اور ٹریفک سگنلز، عام پبلک مقامات اس گروہ کی پسندیدہ جگہیں ہیں، اس لئے یہاں ان کی وافر تعداد نہ صرف یہ آموجود ہوتی ہے، بلکہ کمالِ استقامت کے ساتھ صبح سے رات گئے تک اپنے محاذ پر ڈٹی رہتی ہے۔
گداگر بھی انواع و اقسام کے ہیں، کچھ صحت مند و توانا، کچھ واقعی مریض اور زیادہ تر مصنوعی مریض، مریض اور معذور عام طور پر بیکار شمار کئے جاتے ہیں ، لیکن اس میدان میں وہ نہایت کار آمد اور مفید ہیں ، اسی لئے بہت سے صحت مند بھکاری نابینا اور معذور فقیروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے پتھر دلوں کو موم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، ان میں بچے بھی ہیں، جوان بھی اور بوڑھے بھی ، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، گداگری کے اس پیشے میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں ، زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ گداگری کے لئے بھی جدید ذرائع کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر ممالک میں جو گداگر گرفتار کیے جاتے ہیں، اُن میں 80فی صد تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔حرم سے جو جیب کترے پکڑے جاتے ہیں، اُن میں بھی اکثریت پاکستانی گداگروں ہی کی ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی میں تقریباً دو کروڑ پیشہ وَر بھکاری ہیں۔کچھ عرصہ قبل جب مسجد الحرام کے اطراف بھکاریوں کے خلاف سعودی حکومت نے مہم شروع کی، تو 4ہزار گداگر پکڑے گئے، جن میں 90فی صد پاکستانی تھے۔
گداگری یعنی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا، ان سے مالی معاونت طلب کرنا ایک انتہائی ناپسندیدہ اور گھناؤنا عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسلام جہاں حقیقی مستحق، اپاہج اور معذور لوگوں کی مدد کا درس دیتا ہے، وہیں بلا وجہ گداگری کو ایک برا معاشرتی فعل کہہ کر سخت ممانعت بھی کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بلا وجہ مانگنے والے کو وعید سنائی ہے کہ وہ مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اس حال میں الله سے ملے گا کہ اس کے چہرے پہ گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔
اسلام سے پہلے بعض مذاہب میں مذہبی لوگوں کے لئے کسب ِمعاش کی اجازت نہیں تھی اور ان کا گزر اوقات اسی طرح ہوتا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے دست ِسوال دراز کریں۔ اسلام نے اول روز سے ہی کسب ِمعاش کو ضروری قرار دیا، قرآن نے کہا کہ اللہ کی بندگی سے فارغ ہونے کے بعد کسب ِمعاش کی کوشش کرنی چاہئے اور مال کو فضل الٰہی سے تعبیر کیا (سورۃ الجمعہ :۲۸؍۱۰) رسول اللہ ﷺنے خود تجارت فرمائی ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور اکابر صحابہؓ نے تجارت کی ، حضرت علی ؓاور بہت سے صحابہ ؓنے محنت ومزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کیں اور تلاشِ رزق کی تحسین فرمائی گئی۔
اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی ، لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا، اس کی اصلاح بھی فرمائی، اسلام نے بتایا کہ توکل یہ نہیں ہے کہ اسباب دنیا کو ترک کر دیا جائے ، بلکہ توکل اسباب کو اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ پر چھوڑ دینے کا نام ہے، اس لئے کسب ِمعاش توکل کے منافی نہیں، گداگری پیدا ہی اس لئے ہوتی ہے، کہ انسان کسب ِمعاش کی تگ و دو سے دل چرانے لگے، اس کے سدباب کے لئے آپ ﷺنے ایک طرف کسب ِمعاش کی اہمیت کو واضح فرماکر گداگری کے اصل سبب کو ختم کرنا چاہا۔ دوسری طرف گداگری کی مذمت فرمائی اور اسے سختی سے منع کیا ، ایک صاحب رسول اللہ ﷺکی خدمت میں آئے اور کچھ سوال کیا، آپﷺ نے ان سے فرمایا : تمہارے پاس کیا کچھ سامان ہے ؟
انہوں نے کہا، میرے پاس تو محض ٹاٹ اور پیالہ ہے، آ پ نے وہ دونوں چیزیں منگوائیں اور ان کی سیل لگائی، ایک صاحب نے ایک درہم قیمت لگائی، دوسرے شخص نے دودرہم ، آپ نے اسے دو درہم میں فروخت کر دیا، پھر ایک درہم میں کلہاڑی کا پھل منگوایا اور کلہاڑی بنا کر اسے حوالہ کر دیا اور ایک درہم اسے دے کر ارشاد ہوا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کریں اور کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر لائیں اور فروخت کریں اور ایک ماہ تک پھر کہیں بھیک مانگتے ہوئے نظر نہیں آئیں، ان صاحب نے اس ہدایت پر عمل کیا اور ایک ماہ کے بعد اس حال میں تشریف لائے کہ کئی درہم ان کے پاس موجود تھے اور وہ گداگری کو چھوڑ چکے تھے۔( سنن ابوداؤد : ۱۴۳ ، سنن ابن ماجہ : ۲۱۹۸ )
آپ ﷺ نے فرمایا ’’ یہ بات کہ تم اپنی پیٹھ پر لکڑی کے گٹھے کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو اس سے بہتر ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دست ِسوال پھیلاؤ ، وہ چاہیں تو دے دیں ، چاہے تو نہیں دیں ‘‘۔ (بخاری ، کتاب الزکاۃ )
اس طرح کے بعض اور واقعات بھی منقول ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ دو شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کچھ طلب کیا ، آپ نے مشورہ دیا کہ جنگل جاؤ لکڑی کاٹو اور اسے فروخت کرو ، انھوں نے ایسا ہی کیا، پہلے لکڑیاں بیچ کر کھانے کی اشیاء خریدیں ، پھر سواری کے لئے گدھے خرید ے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رسول اللہ ﷺکے حکم میں برکت رکھی ہے۔ (مجمع الزوائد : ۳ ؍ ۹۴)
آپ ﷺنے سوال کرنے سے صحابہؓ کو اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیزیں مانگنے سے بھی احتراز کرتے تھے، حضرت ابو بکرؓ کا حال یہ تھا کہ اگر اونٹنی کی لگام نیچے گر جاتی، تو اونٹنی کو بٹھاتے اور خود لگام لیتے، لگام بھی دوسروں سے مانگنے کے روادار نہیں ہوتے ۔ (حوالہ سابق) یہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا نتیجہ تھا، حضرت ابو ذر غفاری ؓاور حضرت ثوبان ؓ دونوں کا بیان ہے کہ آپ ﷺنے ان سے عہد لیا کہ کسی سے سوال نہ کریں ، یہاں تک کہ اگر کوڑا نیچے گر جائے تو وہ بھی دوسرے سے نہ مانگیں ۔ (مجمع الزوائد : ۳ ؍۹۳)
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : جو شخص مستغنی ہونے کے باوجود سوال کرے ، وہ اپنے لئے جہنم کی چنگاریوں میں اضافہ کر رہا ہے، دریافت کیا گیا: مستغنی ہونے سے کیا مراد ہے؟ ارشاد ہوا : جس کے پاس رات کا کھانا موجود ہو، گویا جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا موجود ہو اس کے لئے دست ِسوال دراز کرنا روا نہیں، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سوال قیامت کے دن صاحب ِسوال کے چہرے پر خراش کی صورت میں ظاہر ہوگا، اب جو چاہے اسے اپنے چہرے پر باقی رکھے ، اورحضرت حبشی بن جنادہؓ کی روایت میں آپ ﷺکا ارشاد منقول ہے کہ جس نے فقر و محتاجی کے بغیر سوال کیا ، گویا وہ چنگاری کو کھاتا ہے۔ حضرت ثوبان ؓ کی روایت میں ہے کہ پیسہ رکھنے کے باوجود سوال کرنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر عیب کی صورت اختیار کر لے گا۔
غور کیجئے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اگر چہرے پر بدنما دھبہ آجائے تو انسان اسے دور کرنے کے لئے کتنا پریشان ہوتا ہے، آخرت کی دائمی زندگی میں جب اہل جنت خوبصورت ترین شباہت میں ہوں گے، انسان کو اپنے عیب دار اور داغ دار چہرے پر کتنی شرمساری ہوگی، خاص کر ایسی صورت میں کہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ رنگ و نور کی اس بستی میں کوئی شخص اتفاقی اورپیدائشی طور پر بدصورت نہیں ہے، بلکہ اس کی بدصورتی اس کی بداعمالیوں کا عکس ہے، کتنا عجیب ہے کہ بننے سنورنے والا انسان اس دائمی بد روئی اور بد صورتی کے بارے میں فکر مند نہ ہو!
گداگری ، فقر و احتیاج کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کا اصل سبب تن آسانی اورمفت خوری و بطن پروری کی خو ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے حیاء اور غیرت کی چادر کو تار تار کر دیاہے، اگر انسان میں قوتِ ارادی اور خود داری ہو اور اپنی عزت و آبرو عزیز ہو، تو وہ دوسروں کے سامنے دست ِسوال نہیں پھیلا سکتا، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو عفیف و آبرو مند رکھنا چاہے، اللہ تعالیٰ اسے عفیف رکھتا ہے اور جو مستغنی رہنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے استغنا عطا فرماتا ہے۔ (مجمع الزوائد : ۳ ؍ ۹۵، بحوالہ مسند احمد) — خود داری کے اسی مزاج کو باقی رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کیاکہ لوگ بیت المال میں زکوٰۃ جمع کریں اور بیت المال ضرورت مندوں کاحسب ِضرورت تعاون کرے۔
رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ٔ حسنہ ہمارے سامنے موجود ہے ، کہ ایک طرف آپ ﷺ نے بھیک مانگنے والوں کو دینے سے انکارکر دیا اور دوسری طرف انہیں محنت و مزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب بھی دی اور اس کی تدبیر بھی فرمائی ، اگر ہم اپنی قوم کو اس لعنت سے بچاناچاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان میں یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اپنے گاڑھے پسینے بہا کر کمائیں اور آدھے پیٹ کھائیں ، لیکن دوسروں کے سامنے سوال کے ہاتھ پھیلاکر بے آبروئی کا راستہ اختیارنہ کریں۔
اسلام دینِ فطرت ہے یہ کسی صورت میں بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا۔ آج اگر ہمیں اپنے ملک سے گدا گری اور بھیک کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلےاس کی وجوہات غربت، افلاس بیروزگاری اور جہالت جیسی بیماریاں جس نظام سے جنم لے رہی ہیں، اس ظالم سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا اپنے معاشرے سے خاتمہ کرنا ہوگا۔
اس غلط اور فرسودہ نظام کے ذریعے پیدا ہونے والی برائیوں کے مقابلے اور خاتمے کے لیے منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔ بھیک مانگنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے ہمارا فرض ہے کہ سائل کو روپیہ پیسہ یاکھانا دینے کے بجائے انہیں کسی محنت کے کام کی جانب راغب کیا جائے۔ اگر ممکن ہوتو انہیں کوئی ایسا ذریعہ فراہم کیا جائے جس سے وہ سوال کرنے کے بجائے اپنی محنت سے کماسکیں۔