• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
آج دنیا ڈونلڈٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ کا کھلم کھلا جلالی روپ دیکھ رہی ہے کہیں وہ یورپ کے سائز کے گرین لینڈ ملک کو ہڑپ کرنے کے للکارے مار رہا ہے تو کہیں پانامہ پر امریکی جھنڈا لہرانے کی باتیں کر رہا ہے اور تو اور اپنے ہمسایہ ملک اور اپنے سے رقبے میں بڑے پڑوسی کینیڈا کو اپنی ریاست بنانے کے لئے یلغار کرنے کے منصوبے بیان کر رہا ہے۔ ادھر اسرائیل کو گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے لئے اس کی ہر طرح کے اسلحے اور مالی مدد کے ساتھ پیچھے کھڑا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک مست ہاتھی بپھرا ہوا ہر کسی کو اپنی سرخ اور قہر بھری آنکھوں سے گھور رہا ہے اور جو آگے آیا اس کے پاؤں تلے مسلا جائے گا۔ امریکہ اس قسم کا عالمی بدمعاش کب اور کیسے بنا اور کیا اسکا صرف یہی روپ ہے یا کچھ اور رنگ بھی ہیں جو امریکہ کو ایک پرکشش ملک بھی بناتے ہیں جہاں آج دنیا کا ہر شخص جانا چاہتا ہے اور وہاں رہنا چاہتا ہے، زندگی وہیں گزارنا چاہتا ہے۔ امریکہ آج دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے تقریباً 25 ٹریلین ڈالر کا جی ڈی پی ہے اس کی کمپنیاں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں ہیں۔ اسکی فلموں نے دنیا کو نئے ٹرینڈ دیئے ہیں اور ذہن متاثر کئے ہیں۔ سب سے زیادہ نوبل پرائز جیتے ہیں سب سے زیادہ اولمپک میڈل جیتے ہیں۔ سب سے مضبوط فوجی قوت ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں ہے کسی زمانے میں برطانیہ کبھی انڈیا کبھی عرب حتیٰ کہ ہر بڑی طاقت نے اپنے اپنے وقت میں دنیا پر راج کیا ہے۔ اسکی وجہ اسکے پاس دولت کے ذخائر تھے بلکہ تجارت دیکھیں تو صرف دو سو سال پہلے سب سے بڑے دنیا کے تجارتی مراکز انڈیا اور چین ہی تھے۔ لیکن صرف گزشتہ صدی میں امریکہ دولت کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر بن کے ابھرا ایسا کیسے ہوا۔ یہ تو 1492کی بات ہے کہ جب کرسٹوفر کولمبس نے کچھ کیربین جزیرے دریافت کئے اور یورپ والوں کو امریکہ کا پتہ چلا اور امریکہ کے حصوں کو نوآبادیاں بنانا شروع کردیا۔ اس وقت امریکہ میں مقامی لوگ جو رہتے تھے انہیں ریڈانڈین کہتے تھے جو اصل امریکی تھے۔ا سپین نے آج کے بیشتر لاطینی امریکہ کو اپنی نو آبادی بنایا اسی لئے زیادہ تر جنوبی امریکہ میں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ برطانیہ نے تقریباً 1600ء میں اپنی پہلی نوآبادی قائم کی اسی زمانے میں فرانس نے بھی امریکی نوآبادیوں میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ پھر آنے والے برسوں میں امریکہ میں 90 فیصد مقامی امریکی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کچھ تو وہ تھے جنہیں اس نوآبادیات کے ماسٹرز نے قتل عام کرکے مارا اور بڑا حصہ جو یورپیوں کا امریکہ میں نئے بیماریوں کے وائرس لے کر گیا انہیں ریڈانڈین برداشت نہ کرسکے اور دنیا چھوڑ کے چلے گئے۔ ان میں چیچک اور انفلوئنزا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ 4 جولائی 1776 ء کو امریکی انقلابیوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور ایک آزاد امریکہ وجود میں آگیا ۔ لیکن امریکہ کی اقتصادی طور پر کچھ اٹھان جو شروع ہوئی وہ 1850ء اور اسکے بعد سے ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ آزاد ہوتے ہی اور ڈیموکریٹک ریاست بن گیا تھا۔ اس طرح وہاں کی کئی ریاستیں آہستہ آہستہ متحدہ امریکہ کا حصہ بننا شروع ہوگئیں اور انہوں نے اپنے ہسپانوی یا فرنچ ماسٹرز سے چھٹکارا حاصل کرنا شروع کردیا۔ اس میں ان ریاستوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کا اپنا بھی یہی ارادہ اور نیت رہی کہ وہ خود کو جتنا بھی اردگرد پھیلاؤ اور توسیع کرسکیں ان کے لئے اچھا ہوگا۔ اسی لئے 1867ء میں امریکہ نے روس سے الاسکا کی ریاست بھی سات اعشاریہ دو ملین ڈالر میں خریدلی۔ اسی طرح ہوائے پر امریکہ نے 1898 ء میں وہاں کی بادشاہت کا تختہ الٹایا اور قبضہ کرلیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ پرانے سامراج سے ذرا مختلف طریقے سے دنیا کو اپنی نوآبادیاں بناتا رہا۔ فلپائن کو خریدنے کے لئے بھی 20 ملین ڈالر ادا کر چکا ہے جو کسی کام نہ آئے اس طرح امریکہ ایک بہت بڑا ملک بھی بن گیا اور دنیا کے وسائل اور ریاستوں پر قبضے اسکے مزاج کا حصہ بنتے گئے۔ لیکن بڑا ملک ہونے اور جمہوری روایت قائم ہونے سے اسکا معاشی ڈھانچہ بہت مضبوط ہوگیا اور اس وقت سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن کے چل رہا ہے۔ سب سے بڑا دفاعی بجٹ ہونے کی وجہ سے اس کی فوج جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ اسکا جی ڈی پی اپنے نمبر2 سے کئی گنا آگے ہے۔ اس لحاظ سے آج ٹرمپ کی منصوبہ بندیاں دیکھیں تو وہ امریکہ کی تاریخی گروتھ کے عین مطابق ہیں۔ اس سے پہلے مڈل ایسٹ میں امریکہ جس طریقے سے تباہی مچا چکا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب وہ رقبے کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کے لئے تیاری پکڑ رہا ہے۔ اس لحاظ سے لگتا ہے یہ دھونس دھاندلی کا کلچر ابھی دنیا کو کافی دیر تک دیکھنا باقی ہے۔
یورپ سے سے مزید