• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر … لیسٹر
الیکشن کے دوران ہم دن رات ایک کر کے اپنی پسند کے ممبران کو منتخب کراتے ہیں تاکہ وہ ایوانوں میں ہماری نمائندگی کریں اور ہمارے مسائل حل کریں لیکن یہ منتخب نمائندے ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے سرے سے پارلیمنٹ میں جاتے ہی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کا کورم بار بار ٹوٹتا ہے حتیٰ کہ وزراء تک غائب رہتے ہیں جس سے ان کی عدمِ دلچسبی ظاہر ہوتی ہے گویا انہیں اس کام کی سرے سے پرواہ ہی نہیں ہوتی جس کیلئے انہیں منتخب کیا جاتا ہے، اس کے بر عکس جب مراعات کا معاملہ آتا ہے۔ تو ایسا بل چاہے اپوزیشن کی طرف سے ہی پیش ہو تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھ کر منٹوں میں پاس ہو جاتا ہے پھر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کا امتیاز بھی مٹ جاتا ہے گزشتہ ماہ پنجاب اسمبلی کے اراکینِ اسمبلی نے اپنی مراعات میں 500فیصد تک اضافہ کر لیاعام مزدوروں کی تنخواہ میں اگر دس ،پندرہ فیصد اضافہ ہو جائے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے لیکن ہمارے منتخب نمائندے اپنی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ کر کے اس طرح سرخرو نظر آتے ہے، جیسےانہوں نے یہ بل پاس کر کے حقِ نمائندگی ادا کر دیا ہو اور ان کو حاصل ہونے والی مراعات سے قوم کے سارے دکھ درد بھی یک لخت دور ہو گے ہوں چند روز قبل اسپیکر کانفرنس میں بھی مراعات بڑھانے کی بات کی گئی، ساتھ ہی ٹیکس کی چھوٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ حالانکہ ہمارے اسپیکرز کو تو چارٹر طیاروں تک کی سہولت حاصل ہے لیکن ان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں، اس سے قبل مراعات کا ایک بل گزشتہ جون میں قومی اسمبلی نے بھی پاس کیا تھا، فروری 2023 میں سندھ اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں 108فیصد اضافہ کیا، اس بل کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ مراعات کمیٹی کے تمام اراکین حزبِ اختلاف سے تعلق رکھتے تھے جس میں پی ٹی آئی پیش پیش تھی،حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسے پاس کر دیا تھا، عمران خاں کے دور میں جون 2020 میں قومی اسمبلی نے مراعات کا بل پاس کیا جس میں تمام بڑی پارٹیوں نے پی ٹی آئی کا بھر پور ساتھ دیا، اسی طرح ستمبر 2016میں بھی قومی اسمبلی میں تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل متفقہ طور پر پاس کیا گیا، مارچ 2019میں عثمان بزدار کے زمانے میں بھی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگی رکنِ اسمبلی نے مراعات کا بل پیش کیا تھا جسے پی ٹی آئی سمیت سب نے متفقہ طور پر پاس کر لیا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مراعات کے معاملہ میں ہمارے پالیمنٹیرین میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے، اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس ملک کا ستیاناس کرنے میں ہمارے منتخب اراکینِ اسمبلی کا بڑا ہاتھ ہے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبران کی کل تعداد 1256 بنتی ہے، ایک اندازے کے مطابق ان کے سالانہ اخراجات 35 ارب سے تجاوز کر جاتے ہیں اور یہ اخراجات دن بدن اضافہ پذیر ہیں۔ ان شاہ خرچیوں کے ساتھ ہمیں ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے بار بار ڈرایا جاتا ہے۔ عوام بجلی کے بل ادا نہ کر سکنے کے باعث خود کشیاں کر رہے ہیں اور اشرافیہ کے بل بالکل معاف ہیں۔ تقریباً دس کڑور عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لوگ ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں حتیٰ کہ چھوٹے بچے بھی غیر قانونی طریقے سے یورپ منتقل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، آج عوام مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں اور ہمارے منتخب اراکین پارلیمنٹ میں مسلسل غیر حاضر رہنے کے باوجود بھی مراعات سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں، ان کی تنخواہوں میں 500 فیصد اضافہ کوئی معمولی اضافہ نہیں۔ انہیں ہر سال 15 مفت ائرلائن کے ٹکٹ بھی مل جاتے ہیں، نیز بجلی گیس اور ٹیلیفون وغیرہ کے بل بھی معاف ہوتے ہیں، قابلِ غورسوال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں کو ملک کی بدحالی کا احساس کیوں ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم باصلاحیت اور متوسط طبقے کے افراد کو منتخب نہیں کرتے، الیکٹ ایبل کے نام سے چند خاندان اس ملک پر مسلط ہیں جو تین چار بڑی پارٹیز سے منسلک ہیں۔ یہ جماعتیں انہی خاندانوں کو ٹکٹ دیتی ہیں، متحرک کارکن ہمیشہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، حتیٰ کہ مخصوص نشستیں بھی انہی مخصوص خاندانوں کے پاس ہی رہتی ہیں، اس صورتِ حال میں تبدیلی کیسے آسکتی ہے کیونکہ ہمیشہ مراعات یافتہ پارٹی ہی اقتدار میں رہتی ہے، اس پارٹی کے کچھ ممبران حکومت میں ہوتے ہیں اور باقی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہیں، عوام کا کام ان کے لیے وسائل اکٹھے کرنا، نعرے بازی اور باگ دوڑ کرنا وغیرہ ہوتا ہے اگر آپ ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا حل مراعات یافتہ طبقہ سے نجات حاصل کیے بغیر ممکن نہیں، عوام کو چاہئے کہ زمامِ کار ایسے افراد کو سونپیں جو ملک کے خیر خواہ ہوں، جنہیں غریبوں کا احساس بھی ہو، اس ملک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں، وہ ایمان دار بھی ہیں اور باصلاحیت بھی، ایسے با صلاحیت افراد ہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔