خیال تازہ … شہزاد علی وطن عزیز میں ہم نے اوائل عمری میں ہی جن اساتذہ سے دینی تعلیم پائی انہوں نے یہ باتیں ذہن میں بٹھا دیں کہ اسلام ایسا دین ہے جس میں ذات پات کی کوئی قید نہیں، بلکہ اسلام نے زندگی کے مختلف معاملات میں معیار تقویٰ کو رکھا مگر جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے تو صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ اکثر یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے تھے کہ شاید ہمارے آزاد کشمیر کے دیہاتی علاقوں میں تعلیم کا معیار اس طرح کا نہیں مگر برطانیہ آکر بھی یہاں تین دہائیوں سے زیادہ مدت گزار کر بھی یہ مشاہدہ کیا ہے کہ متعدد حوالوں سے اپنی کمیونٹی کی وہ نسلیں بھی جن کو برطانیہ جیسے آزاد خیال جدید معاشرے میں زندگی کے شب و روز بسر کرتے نصف صدی سے بھی طویل عرصہ بیت گیا ان کی بھی قابل ذکر تعداد ابھی تک ذات پات کے نظام سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے جو تعجب خیز ہے۔ مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ میں آزاد کشمیر کے بعض علاقوں سے متعلق کمیونٹی کے بعض لوگ اس جدید معاشرے میں رہتے ہوئے بھی روایتی سماجی ڈھانچوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جن میں برادری نظام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ نظام جو جنوبی ایشیائی ثقافت میں گہری جڑیں رکھتا ہے، معاشرے کو ذیلی ذاتوں یا قبیلوں میں تقسیم کرتا ہے، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول سیاسی میدان میں امیدواروں کا مخصوص برادری سے ہونا چاہئے جبکہ خاص طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہائش کے باوجود یہ ذیلی ذاتیں موجود ہیں جو نئی نسل کی شادی کے انتخاب اور نتیجتاً ان کی سماجی ہم آہنگی اور ذاتی خود مختاری کو متاثر کرتی ہیں۔ برادری نظام کی تفہیم، برادری نظام ایک درجہ بندی پر مبنی سماجی ڈھانچہ ہے جو افراد کو نسب کی بنیاد پر قبیلوں یا ذیلی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ برطانیہ میں، آزاد کشمیری کمیونٹی سے متعلق بعض قبائل ابھی بھی ان ذاتوں کی بنیاد پر سماجی معاملات، میل ملاپ اور شادی کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ شادیوں کا اہتمام اکثر اسی برادری کے اندر کیا جاتا ہے تاکہ ذات پات اور قبیلوں کی مخصوص ثقافتی شناختوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ بعض صورتوں میں بیک ہوم خاندانی جائیداد کو بھی اس طرح محفوظ سمجھا جاتا ہے، خاندانی منظوری حاصل ہو اور سماجی ہم آہنگی برقرار رہے۔ ایک ہی مذہب سے تعلق ہونے کے باوجود اس نوعیت کی طبقاتی تقسیم برطانیہ میں پیدا ہونے والی آزاد کشمیر کی نئی نسل کی اکثریت کے لیے تعجب خیز ہے۔ شادی کے انتخاب پر اثرات، برادری کے اندر شادیوں کی ترجیح نئی نسل کی ذیلی ذات سے باہر شریک حیات کے انتخاب کی آزادی کو محدود کر سکتی ہے۔ اس پابندی کے نتیجے میں کئی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جیسا کہ ذاتی خود مختاری ہے، افراد خاندانی توقعات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور محسوس کر سکتے ہیں، جو ان کی ذاتی خواہشات اور شریک حیات کے انتخاب میں خود مختاری پر سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ ازدواجی تعلقات عدم استحکام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خاندانی اور ذیلی ذات کی توقعات کی پابندی والی شادیوں کو منفرد چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے، جن میں مطابقت کے مسائل اور ازدواجی عدم استحکام شامل ہیں حالانکہ اس سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں جو قریبی برادری نظاموں میں عام ہیں، کا تعلق صحت کے خطرات، بشمول جینیاتی امراض، سے جوڑا گیا ہے۔ تحقیقاتی شوائد سے پتہ چلا ہے کہ برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی میں قریبی رشتہ داروں کی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچوں میں پیدائشی نقائص کی شرح زیادہ ہے۔ نئی نسل کے حوالے لوگ دوسری برادریوں سے رشتے کرنا چاہتے ہیں ان کے کئی بزرگ راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ وہ ان کو بس اپنے قریبی رشتہ داروں تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں جس وجہ سے کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں بے راہ روی اختیار کرلیتے ہیں۔ تاہم یہ امر بھی باعث فکر ہے کہ زیادہ تر مذہبی شخصیات نے بھی اس اہم معاملہ پر چپ سادھے ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ کشمیر کے وہ صاحبان بصیرت بھی زیادہ تر اس موضوع پر لب کشائی سے گریزاں ہیں جو کشمیر کی قومیت اور قومی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برادری ازم میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس مسئلے پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نوجوان نسل کو متاثر کرتا ہے۔