سوال: ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے ورثاء ميں ایک بیوہ ہے، اس کی اولاد کوئی نہیں اور مرحوم کے تین بھائی زندہ ہیں، ایک بھائی مرحوم سے قبل انتقال کر گیا تھا، مرحوم ایک فرم میں ملازم تھے۔
بیوہ اسکول ٹیچر تھی اور اسے اپنے والدین کی طرف سے ورثے میں کثیر رقم بذریعہ پے آرڈر اور نقدی کی صورت میں ملی تھی۔ مرحوم اپنی اہلیہ کے ساتھ مشترکہ رقم سے پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ وہ 31 دسمبر 2022ء کو ریٹائر ہوئے ، جب کہ مرحوم کا انتقال 8 جنوری 2023 کو ہوا۔ اس حوالے سے چند سوالات درپیش ہیں۔
1۔ مرحوم کےاپنی بیوی کے ساتھ مشترکہ بینک اکاؤنٹس تھے، اکاؤنٹز کے tittle میں مرحوم اور بیوہ دونوں کا نام شامل تھا گویا ملکیت مشترکہ تھی۔ بینک میں اکاؤنٹ کھولتے وقت دونوں نے بینک کو لکھ کر دیا تھا کہ جب تک ہم دونوں زندہ ہیں، یہ اکاؤنٹس مشترکہ ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی انتقال کر جاتا ہے تو زندہ رہ جانے والا ساتھی رقم کا حق دار ہو گا، یعنی اکاؤنٹس either or survivor کی بنیاد پر تھے۔
مرحوم نے موت سے قبل ایک گفٹ ڈیڈ Gift Deed اپنی بیوی کو دی جس کے تحت اپنی بینک میں موجود رقم بیوی کو گفٹ کر دی اور بیوہ نے مرحوم کی موت سے قبل بینک سے بیشتر نقدی نکال لی (گفٹ ڈیڈ وغیرہ کے تحت) رقم سے اپنے مرحوم شوہر جو کہ کینسر کے مریض تھے، ان کے علاج میں اور دیگر ذاتی اخراجات میں صرف کی، علاوہ ازیں مرحوم اپنے ایک بھائی کو ماہانہ اخراجات کے واسطے بھی رقم دیتے تھے۔
2۔ مرحوم کے نام ایک رہائشی گھر تھا، جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ اس گھر کی خریداری میں مرحوم کے علاوہ بیوہ نے اپنا زیور بیچ کر رقم ڈالی تھی۔ اس گھر کی خریداری میں بیوہ کے بھائی نے بھی بذریعہ بینک رقم دی تھی اور ایک پلاٹ تھا، جسے وہ انتقال سے قبل اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرنا چاہتے تھے اور اس کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔
مرحوم کے ایک بھائی نے ان کی زندگی میں غلط بیانی کر کے اپنے نام منتقل کروا لیا اور مرحوم بھائی کو عندیہ دیا کہ بیوہ جس مکان میں رہ رہی ہے، اسے وہ دے دیا جائے گا، مگر گھر کی ملکیت کی منتقلی میں روڑے ڈالے۔
3۔ اس کے علاوہ ترکے میں الف: شیئرز سرٹیفکیٹس، ب: پراویڈنٹ فنڈ کے واجبات، ج: اور گریجويٹی فنڈ کے واجبات بھی ہیں جو کہ مرحوم کے employer سے قابل وصولی ہیں، جس کے لیے مرحوم نے اپنی بیوی کو اپنے آفس میں پراویڈنٹ فنڈ اور گریجويٹی کے لیے نامزد کیا تھا۔
4۔ مرحوم نےاپنی زندگی میں اپنے بھائی کے پاس زیورات جو کہ اس کی بیوی کے جہیز اور بری میں ملے تھے امانت کے طور پر بینک لاکر میں رکھوائے تھے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب:1۔ صورتِ مسئولہ میں بینک میں مرحوم کے اپنی اہلیہ (سائلہ) کے ساتھ جو مشترکہ اکاؤنٹس تھے، جسے مرحوم نے اپنی وفات سے قبل تحریری طور پر گفٹ ڈیڈ بناکر سائلہ کے نام کر دیا تھا اور سائلہ نے گفٹ ہونے کے بعد بینک میں موجود رقم کو نکلواکر اپنے قبضے میں لے کر اپنے ذاتی مصرف میں استعمال بھی کی تھی، تو مذکورہ مشترکہ بینک اکاؤنٹ میں موجود ساری رقم سائلہ کی ہوئی اور یہ رقم ترکے میں شامل ہو کر ورثاء میں تقسیم نہیں ہو گی۔
2۔ مرحوم کا رہائشی مکان جس میں سائلہ نے اپنے زیورات بیچ کر رقم ڈالی تھی اور اسی طرح سائلہ کے بھائی نے بھی گھر کی خریداری میں بہن کی مدد کے طور پر بذیعہ بینک رقم بھیجی تھی، تو یہ مکان مرحوم اور سائلہ کے درمیان ان کے حصص کے حساب سے مشترک ہے، لہٰذا مکان میں جس قدر حصے سائلہ کے ہیں، وہ سائلہ ہی کی ملکیت رہیں گے اور مرحوم شوہر کے حصے شرعی طور پر ورثاء میں تقسیم ہوں گے۔ مرحوم شوہر نے مکان سائلہ کے نام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو صرف خواہش کے اظہار کرنے سے پورا مکان سائلہ کا نہیں ہو گا۔
3۔ الف: اور شئیرز سرٹیفیکٹ یہ مرحوم کے ترکے میں شامل ہو کر ورثاء کے درمیان حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔
ب: گریجویٹی فنڈ کی رقم ادارے کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے، اس رقم کا حق دار وہی ہوتا ہے، جس کے نام پر یہ رقم جاری ہو، لہٰذا اس فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم مرحوم کے ترکے میں شامل نہیں ہو گی، بلکہ شوہر کی جانب سے بیوی کو نامزد کیے جانے کی وجہ سے گریجویٹی فنڈ وصول کرنے کی حق دار مرحوم کی بیوہ ہی ہو گی اور اس فنڈ میں بقیہ ورثاء میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہو گا۔
ج: پراویڈنٹ فنڈ چوں کہ ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے، اس وجہ سے مذکورہ فنڈ مرحوم کے ترکے میں شامل ہو گا، تاہم اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مذکورہ فنڈ کے لیے تنخواہ میں سے کٹوتی جبراً ہوتی تھی تو ایسی صورت میں اس فنڈ کی کل رقم ترکے میں شامل ہو گی اور اگر ملازم کی تنخواہ سے اختیاری طور پر کٹوتی ہوتی تھی، تو اس صورت میں صرف اصل رقم اور وہ رقم جو ادارہ اپنی طرف سے شامل کر کے دے، ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم ہو گی۔
مرحو م کے جس بھائی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوا ہے، شرعاً مرحوم کے ترکے میں اس کا کوئی حق نہیں ہو گا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے باقی مال کے ایک تہائی حصے میں سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 4 حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مرحوم کی بیوہ کو اور ایک ایک حصہ مرحوم کے ہر ایک زندہ بھائی کو ملے گا، صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: مرحوم شوہر: 4
یعنی فیصد کے حساب سے بیوہ کو 25 فیصد اور مرحوم کے ہر ایک زندہ بھائی کو بھی 25 فیصد کر کے ملے گا۔
4۔ اور مرحوم نے اپنی زندگی میں بیوی کے جو زیورات (خواہ اسے جہیز میں ملے تھے یا شوہر نے کسی اور موقع پر گفٹ کیے تھے) اپنے بھائی کے لاکر میں امانت کے طور پر رکھوائے تھے، وہ سب مرحوم کی بیوہ کی ہی ملکیت ہیں، اس پر کسی اور کا کوئی حق نہیں ہو گا، لہٰذا مذکورہ بھائی پر شرعاً لازم ہے کہ وہ تمام زیورات مرحوم بھائی کی بیوہ کے سپرد کرے اور بری کے زیورات کی مالک بھی بیوہ ہے۔