ڈاکٹر نعمان نعیم
گزشتہ دنوں ’’اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالم اسلامی‘‘ کی جانب سے مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے عالمی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا بنیادی موضوع مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اور اس حوالے سے درپیش مسائل و چیلنجز کا قرآن و سنت اور تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں حل پیش کرنا تھا۔
تقریب میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حسین ابراہیم طہٰ اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ سمیت 47 مسلم ممالک کے وزراء، سفیروں، ماہرین تعلیم اور اسکالرز سمیت 150 سے زائد مسلم دنیا کی بین الاقوامی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔کانفرنس کا بنیادی موضوع اسلامی معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اور اس کی اہمیت تھا،اس حوالے سےقرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متعلقہ موضوع پر ذیل میں مضمون نذرِ قارئین ہے۔
معاشرے کی تشکیل مرد اور عورت کے باہمی تعاون پر منحصر ہے، کوئی بھی اسلامی معاشرہ اس وقت تک ترقی یافتہ اور فلاحی نہیں بن سکتا ،جب تک اس کی خواتین کو وہ تمام حقوق نہ دیئے جائیں جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں۔ ان حقوق کے بغیر خواتین اپنے سماجی فرائض کو حقیقی معنوں میں ادا نہیں کر سکتیں۔
اسلام نے معاشرے میں اصلاح و کردار سازی ،خاندانی نظام کی بقا و استحکام کے لیےخواتین بالخصوص لڑکیوں کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے علم حاصل کرنا ان کا حق قرار دیا اور مردوں کی طرح ان پر بھی حصول علم کو ایک فریضہ قرار دیا۔
بچوں کی پہلی معلمہ ہونے کی حیثیت سے ماؤں کی تعلیم و تربیت بعض پہلوؤں میں مردوں کی تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ قوموں اور نسلوں کی تعمیر و ترقی خواتین کی تعلیم پر منحصر ہے۔ عہدِ نبویؐ میں خواتین کی تعلیم و تربیت کو کس قدر اہمیت دی گئی، اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات، تعلیم کے مقاصد، اسالیب، اور تعلیمی مراکز کا قیام یہ سب اہم پہلو ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد دعوتِ دین، انسانیت کی تعلیم و تربیت کے لیے علم کی روشنی کو عام کرنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے خود کو معلم قرار دیا،آپ ﷺ نے فرمایا:’’إنما بُعِثتُ مُعَلِّمًا. "میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"( سنن ابن ماجہ)
آپ ﷺ کی معلمانہ حیثیت نہایت جامع تھی، کیونکہ آپ ﷺتمام انسانیت کے لیے معلم بناکر مبعوث فرمائے گئے۔ آپ ﷺ کی تعلیمی سرگرمیاں کسی مخصوص ادارے تک محدود نہیں تھیں۔ آپ ﷺ نے مختلف مواقع اور حالات میں تعلیم دی، چاہے وہ نجی مجالس ہوں، مساجد و مکاتب، عوامی اجتماعات و تقریبات، یا سفر و حضر۔ حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا، اور مردوں کے ساتھ خواتین بھی اس علم سے بھرپور استفادہ کرتی تھیں۔
اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، انسان نے اپنی زندگی کا آغاز علم کی روشنی سے کیا، نہ کہ جہالت اور تاریکی سے، جیسا کہ مغرب کے ارتقائی نظریات میں بیان کیا جاتا ہے۔ خلافت اور نیابتِ الٰہی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے علم کا حصول ناگزیر ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے برعکس، اسلام نے علمی اجارہ داریوں کو ختم کرتے ہوئے بلا تفریق علم کے حصول کو سب کے لیے لازم قرار دیا۔
قدیم تہذیبیں، اپنی علمی و تمدنی ترقی کے باوجود، "تعلیم سب کے لیے" کے اصول پر متفق نہ ہو سکیں۔ مثلاً افلاطون اور ارسطو عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ناانصافی تو قرار دیتے ہیں، مگر ارسطو خواتین کے لیے محض واجبی تعلیم کو کافی سمجھتا ہے اور خواتین کے لیےاعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتا ہے۔ یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے دوران خواتین کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا، اور مردوں کے مقابلے میں ان کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
اسلام کا موقف:۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے علم حاصل کرنا یکساں طور پر ضروری قرار دیا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:"علم کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔"( سنن ابن ماجہ)یہاں "مسلم" سے مراد مرد اور عورت دونوں ہیں، کیونکہ شریعت کے احکام دونوں کے لیے یکساں ہیں، سوائے ان معاملات کے جن میں نصوص کے ذریعے استثنا دیا گیا ہو۔
اسلامی معاشرے میں خواتین کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت:۔ اسلا م میں تعلیم نسواں کے بارے میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ ایک ہی محکم اور پختہ حکم ہے اور وہ ہے عورتوں کو زیورِ تعلیم سے لازماً آراستہ کرنے کا، کیونکہ بے علم اور جاہل عورت معاشرے کی پسماندگی اور ابتری کا باعث بنتی ہے۔
اس کے برعکس علم کے زیور سے آراستہ خاتون صحیح اور غلط، حق اور باطل، جائز اور ناجائز کی حدود کو جانتی اور پہچانتی ہے اور وہ اپنی زندگی کے پیش آمدہ مسائل کو خوش اُسلوبی سے نمٹا لیتی ہے۔ یہ علم اسے شائستہ اور مہذب بناتا ہے ۔ وہ اپنے بچوں کی بھی صالح تربیت کرکے صالح معاشرہ تعمیر کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے۔ خواتین کی تعلیم صرف انفرادی ترقی ہی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کےچند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
نبی کریم ﷺ کی اپنی ازواج کی تعلیم پر توجہ:۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہراتؓ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی بخوبی نبھا سکیں۔ اہم معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا اور رہنمائی حاصل کی جاتی تھی۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ آج بھی اسلامی تاریخ کی عظیم معلمات کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی فضیلت:۔ آپ ﷺ نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ترغیب دیتے ہوئے اس عمل کو جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے:ترجمہ: جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی اور ان سے حسن سلوک کیا، اس کے لیے جنت ہے۔( سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فضل من عال يتيماً، رقم: 5147)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اس کی تذلیل نہ کرے اور نہ اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔( سنن ابی داؤد، کتاب الطب، باب ما جاء فی الرقی، رقم: 3887)تعلیم و تربیت بھی ترجیح میں داخل ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی معاملے میں بالخصوص تعلیم و تربیت میں بھی لڑکے کو لڑکی پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔
کنیزوں اور خادمات کی تعلیم:۔ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف آزاد خواتین بلکہ کنیزوں اور لونڈیوں کی تعلیم پر بھی زور دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:ترجمہ: جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو، پھر وہ اسے اچھی تعلیم دے، بہترین تربیت کرے، آزاد کرے اور پھر اس سے نکاح کرے، اس کے لیے دہرا اجر ہے۔(الجامع الصحيح للبخاری،کتاب العِنْقِ، بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ ، رقم: 2547)
خواتین کی تعلیم اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کے سفر میں مرد کی مشیر ہوتی ہیں، اور مشیر کے لیے علم اور بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔ عورت کے اثرات گھر کے ماحول اور بچوں پر مرد سے زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے اسے تعلیمی مواقع فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے فرائض اور حقوق سے آگاہ ہو سکے۔
عورت تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ہی اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو سکتی ہے۔ جہالت کی تاریکیوں میں رکھ کر اس کا استحصال بہت بڑا ظلم ہے۔ انہیں علم کی روشنی سے محروم رکھنے کی ایک بڑی وجہ وہ استحصالی ذہنیت بھی ہے جو انہیں اپنے مذہبی، سماجی، ازدواجی اور قانونی حقوق سے بے خبر رکھنا چاہتی ہے۔
بعثت نبوی ﷺ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تعلیم ہے اور آپ ﷺ کے مخاطب جس طرح مرد ہیں ایسے ہی عورتیں بھی ہیں۔ علم کی اہمیت، فضیلت و ترغیب سے متعلق احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ منقول ہے۔ یہ احادیث مرد و زن سب کیلئے یکساں ہیں اور انہیں صرف مردوں کے ساتھ مخصوص کرنے کا کوئی شرعی یا عقلی جو از موجود نہیں۔
مردوں اور عورتوں کے فرائض اور دائرہ کار میں تنوع اور اختلاف کی بنیاد پر بعض علوم کی تحصیل خواتین کے لئے فرض عین، بعض کی فرض کفایہ، بعض کی مستحب اور بعض کی تحصیل مباح کا درجہ رکھتی ہے۔
مفتی کفایت اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں: "عورتوں کیلئے ضروری علوم حاصل کرنے کی فرضیت، علوم مستحبہ کے حصول کا استحباب اور علوم مباحہ کے حصول کی اباحت محل تردد نہیں اور اس بارے میں عورتوں اور مردوں میں فرق کرنے کی شریعت مقدسہ میں کوئی دلیل موجود نہیں "۔( کفایۃ المفتی، 2/64)
احادیث ِنبویﷺ کی روشنی میں تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت
تعلیم ہرمرد وزَن کا نہ صرف حق ہے ،بلکہ بطورِ مسلمان ہم پر فرض اور ہمارا طرۂ امتیاز ہے، اور اس باب میں اُصولی طورپر مرد وزن دونوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے، بعض لوگوں کی علاقائی روایات ، کلچر یا خارجی وجوہات کی بناء پر اس بنیادی حق میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے، لیکن جہاں تک اسلام کی ہدایت اور خیرالقرون سے ہمیں معلوم ہوتا ہے تو مسلم خواتین پر تعلیم کے لازمی ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں رکھی جاسکتی۔ذیل میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں جو خواتین کی تعلیم و تربیت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں:
1.نبی کریمﷺ نے خواتین کی تعلیم کے لئے ایک دن متعین کیا ہوا تھا، جیسا کہ سیدنا ابو سعید خدریؓسے مروی ہے:ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی: یارسول اللہﷺ! مرد حضرات آپ سے فرامین سیکھنے میں سبقت لے گئے، ایک دن ہمارے لئے بھی متعین فرمائیے جس میں ہم آپ سے وہ سیکھیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے تو آپ نے فرمایا: تم فلاں فلاں دن، فلاں فلاں مقام پر جمع ہوجایا کرو۔
عورتیں وہاں جمع ہوگئیں تو آپﷺ ان کے پاس آئے اور اُنہیں اللہ سے سیکھی باتیں سکھائیں۔ فرمایا: کسی عورت کے اگر تین بچے فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ایک عورت بولی: اگر دو بچے فوت ہوجائیں تب؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: دو بھی، اس نے یہ بات دو بار دہرائی تو آپ ﷺنے تین بار دو، دو، دو کہا۔‘‘(صحیح بخاری)
2.۔خواتین کے لیے تعلیم کا خاص اہتمام: سيدناعبد الله بن عباس ؓکی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے:ایک بارنبی کریم ﷺ خطبہ دے کر نکلے اور آپ کو گمان ہوا کہ خواتین تک آواز نہیں پہنچی تو آپﷺ نے اُنہیں بھی وعظ ونصیحت فرمائی اور اُنہیں صدقہ کا حکم دیا۔ خواتین پر اس کا اثر یہ ہوا کہ کسی نے اپنے بالی اُتار دی، اور کسی نے انگوٹھی راہِ خدا میں دے دی۔ سیدنا بلال ؓ اُنہیں اپنی چادر کے پلّو میں اکٹھا کرنے لگے۔‘‘( صحیح بخاری)
اوپر جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان میں خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کی بارے میں رہنمائی ملتی ہے ، جہاں تک اُنہیں لکھنا پڑھنا سکھانےکی بات ہے تو احادیثِ نبویہ میں اور صحابیات کے معمولات سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی صحابیہ لیلیٰ شفاءؓ بنت عبد اللہ عدویہ قرشیہ کو تلقین کی کہ وہ آپ کی زوجہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، شفاءؓ خود راویہ ہیں:میں سیدہ حفصہؓ کے پاس بیٹھی تھی کہ نبی کریمﷺ بھی وہاں آگئے اور مجھے فرمایا: تم حفصہ کو پُھنسی کا علاج بھی سکھادو، جیسا کہ تم نے اسے لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔( سنن أبو داوود، باب ماجاء فی الرقی، رقم: 3887)
اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی بھانجی عائشہ بنتِ طلحہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے کہا اور میں ان کے زیر تربیت تھی ، لوگ مختلف شہروں سے اُن کے پاس آتے تھے، اور بزرگ لوگ، سیدہ عائشہؓ سے میرے تعلق کی بناء پر مجھ سے رابطہ رکھتے، مجھے سوالات لکھوایا کرتے۔
میں عائشہ صدیقہ ؓسے کہتی: اے خالہ جان! یہ فلاں کا مراسلہ اور اس کا ہدیہ ہے۔ تو حضرت عائشہؓ مجھے فرماتیں : پیاری بیٹی! ان کے مراسلے کا جواب لکھو اور درست مسئلہ بتاؤ ۔ اگر تم درست مسئلےسے ناواقف ہوئیں تو میں تمہیں سمجھا دوں گی۔ چنانچہ وہ مجھے بعض مسائل میں راہنمائی دیا کرتیں۔‘‘(الأدب المفرد للبخاری)
نبی کریم ﷺ صحابہ کرامؓ کو تلقین فرماتے تھے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو تعلیم دیں، سیدنا مالکؓ بن حویرث سے مروی ہے:میں نبی کریمﷺ کے پاس اپنی قوم کے ساتھ آیا۔ ہم نے بیس راتیں آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپﷺ بہت مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپﷺ نے اہل وعیال سے ہماری اُداسی محسوس کی تو فرمایا: اپنے گھروں میں چلے جاؤ اور انہی میں قیام کرو۔
ان کو تعلیم دو اور نماز پڑھاؤ، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور تم میں سب سے بڑا امامت کرائے۔‘‘( صحیح بخاری، رقم: 597)اسلام نے نہ صرف خواتین کے لئے تعلیم کو ضرروی قرار دیا ، بلکہ دین میں مہارت اور بصیرت کو قابل تعریف قرار دیا ہے، جیساکہ اسماءؓبنت یزیدنے سیدہ عائشہ ؓکا یہ فرمان ذکر کیا ہے: انصاری خواتین بہترین عورتیں ہیں کہ دین کی گہری سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں انہیں شرم وحیا مانع نہیں ۔(صحيح مسلم، رقم: 500)
ان احادیث کے علاوہ متعدد ایسی احادیث موجود ہیں جو خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو مزید واضح کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے فرامین اور عملی اقدامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام نے خواتین کی تعلیم کو معاشرے کی ترقی اور فلاح کے لیے بنیادی حیثیت دی ہے۔ علم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، اور خواتین کو اس نعمت سے محروم رکھنا نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی نقصان کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا، خواتین کی تعلیم کو فروغ دینا اسلامی تعلیمات کا اہم تقاضا ہے۔ ( … جاری ہے … )