دنیا کی دوسری بڑی آبادی رکھنے والے ملک چین میں مسلسل 3 سالوں سے شرح پیدائش میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بیجنگ کے قومی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق 6 دہائیوں سے زائد عرصے تک مسلسل اضافے کے بعد اب شرحِ پیدائش میں کمی کی وجہ سے چین کی آبادی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024ء کے آخر تک چین کی آبادی 1.408 بلین ہو گئی جو 2023ء میں 1.410 بلین تھی۔
رپورٹ کے مطابق 2024ء میں آبادی میں کمی کی رفتار 2023ء کے مقابلے میں کم تھی جبکہ 2023ء میں چین کی آبادی میں جو کمی کی رفتار ریکارڈ کی گئی وہ 2022ء کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ تھی۔
چینی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چینی عوام ملک میں شرحِ پیدائش میں کمی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے افرادی قوت میں شامل ہونے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔
یاد رہے کہ چین کی حکومت نے ملک کی آبادی میں مسلسل کمی کے پیشِ نظر اپنی سخت ’ون چائلڈ پالیسی‘ کو ختم کر دیا ہے جو 1980ء کی دہائی میں ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
لیکن چینی حکومت کے یہ اقدام ایک ایسے ملک کی آبادی میں کمی کے سلسلے کو روکنے میں ناکام رہا ہے جو کہ طویل عرصے سے معاشی ترقی کے محرک کے طور پر اپنی وسیع افرادی قوت پر انحصار کرتا ہے۔
محققین کے ایک گروپ’اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2035ء تک 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد چین کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصّہ ہوں گے۔
گزشتہ سال ستمبر میں چینی حکّام نے کہا تھا کہ وہ بتدریج قانونی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کریں گے، جو کئی دہائیوں سے نہیں بڑھائی گئی تھی اور یہ قوانین چین میں 1 جنوری 2025ء سے نافذ العمل ہیں۔