نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے میرے اقتدار سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو وہ ان کیلئے خطے کو جہنم بنا دیں گے اسکے بعد ہی جنگ بندی کیلئے مذاکرات میں تیزی آئی جس کا اسٹرکچر لیے جوبائیڈن انتظامیہ31 مئی 2024سے کوشاں تھی ۔واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر 1200اسرائیلیوں کو نشانہ بنایا تھا، اور ڈھائی سو یہودیوں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے، وہیں اس جنگی ماحول اور آپادھاپی میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی عرب بھی لقمہ اجل بن رہے تھے جس میں بلاشبہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے حماس کی ہیلتھ منسٹری نے اس سلسلے میں جو کوائف جاری کیے ہیں ان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد چھیالیس ہزار چار سو چالیس ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بیان کی جا رہی ہے لیکن اسرائیلیوں کے مطابق انہوں نے حماس سے وابستہ 17 ہزار کے قریب جنگجوئوں کا خاتمہ کیا ہے۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد جو بھی ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے غزہ کا تورا بورا بنا ڈالا ہے جس کی تعمیر نو کیلئے امریکا اور یورپی یونین جتنی چاہے امداد بھیج دیں، مکمل بحالی کیلئے برسوں درکار ہوں گے مگر پھر بھی مرنے والے تو واپس نہیں آ سکیں گے کوئی جتنی چاہے جنگیں لڑے بالآخر آنا تو مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے سو یہاں بھی بائیڈن انتظامیہ نے دوحہ میں مذاکرات کا ڈول ڈال رکھا تھا جو بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں امریکا، مصر اور قطر کی نگرانی میں ایک ڈیل یا امن معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت اتوار 19جنوری سے فریقین میں جنگ بندی ہو جائے گی اس معاہدے کے تین فیز یا مراحل ہیں پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں کی فائر بندی ہو گی جس میں 33اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل 2ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں حماس کے وہ ڈھائی سو فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں دہشت گردی کے مرتکبین قرار دیتے ہوئے اسرائیلی عدالتوں میں شدید سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ اسرائیلی فورسز مصر اور غزہ کی سرحد پر فلاڈیلفی کوریڈور سے بھی بتدریج نکل جائیں گی اور غزہ کے گنجان آباد علاقوں کو بھی خالی کر دیں گی البتہ اسرائیلی فورسز غزہ کی مشرقی جانب قائم آٹھ سو میٹر چوڑے بفر زون میں موجود رہیں گی اسرائیل مصر کی رفح راہداری کھول دے گا جس سے امدادی اور طبی سامان سے لدے 600ٹرک غزہ پہنچ سکیں گے مزید امدادی ٹرکوں اور ایندھن سے بھرے ٹینکروں کو بھی داخلے کی اجازت ہو گی اسرائیل زخمی فلسطینیوں کو بیرون ملک علاج کیلئے جانے دے گا اور اپنے گھروں سے نکلے ہوئے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ یورپی یونین نے غزہ کی تعمیر نو کیلئے بھاری رقوم کی فراہمی کا فوری اعلان بھی کر دیا ہے دوحہ مذاکرات میں جہاں حماس کا سارا زور اس امر پر تھا کہ مستقبل کے سیٹ اپ میں اس کی پرانی حیثیت قائم و دائم رہنی چاہیے اور اس کے زیادہ سے زیادہ حملہ آور قیدی رہا ہونے چاہئیں وہیں اسرائیلیوں کا اصل ٹارگٹ انکے یرغمالیوں کی رہائی تھا۔ حماس نے 94یرغمالیوں میں سے 33 کی رہائی فرسٹ فیز یا ابتدائی مرحلے میں قبول کر لی ہے جن میں بچے بوڑھے زخمی بیمار اور خواتین شامل ہوں گی بتایا جا رہا ہے 34یرغمالی مارے جا چکے ہیں جن کی لاشیں اگلے مرحلے میں واپس کی جائیں گی جبکہ ستائیس کے قریب یرغمالیوں کو اسرائیلی انخلا سے مشروط کرتے ہوئے مذاکرات کے اگلے فیز تک حماس اپنے قبضے میں رکھے گا اس ایشو پر اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو کو اپنے دائیں بازو کے اتحادیوں بالخصوص قومی سلامتی کے وزیر اور وزیر خزانہ کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے جن کا استدلال ہے کہ ہم نے پندرہ ماہ جدوجہد سے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں یرغمالیوں کی رہائی کے فیز میں ڈال کر انہیں سبوتاژ کیا جا رہا ہے اس لیے ہم حکومت گرائے بغیر اس سے الگ ہو جائیں گے اسی لیے نیتن یاہو کو کابینہ سے منظوری بھی التوا میں ڈالنا پڑی۔ جوبائیڈن بھی تقریباً اتنے ہی دنوں بعد یہ کریڈٹ لے کر رخصت ہو رہے ہیں کہ انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کو بالآخر چھڑوا لیا اس سلسلے میں انہوں نے اپنی نائب صدر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ کے ہمراہ باقاعدہ پریس کانفرنس میں تفصیلات بیان کی ہیں لیکن نیتن یاہو نے ان کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے صدر ٹرمپ کو شکر گزاری کا فون کیا، جنہوں نے سب سے پہلے امن معاہدے یا ڈیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’’ہم مڈل ایسٹ میں اپنے یرغمالیوں سے متعلق ڈیل حاصل کر چکے ہیں، انہیں جلد رہا کر دیا جائے گا، تھینک یو‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یورپی یونین، مصر، متحدہ امارات، سعودی عرب اور قطر سمیت عالمی برادری نے اس جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تل ابیب اور غزہ ہر دو مقامات پر اپنی اپنی کامیابی کا جشن منایا گیا ہے کالم میں اتنی گنجائش نہیں ورنہ اس ایشو پر پوری بحث کی جاتی کہ حماس والے اپنی کس کامیابی کا جشن منا رہے ہیں؟ اسرائیلیوں کا جشن تو سمجھ آتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے یرغمالی چھڑانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئے بلکہ انہوں نے حماس کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ آئندہ اسرائیل کے اندر گھس کر یہودیوں کو مار سکے جیسی تیسی ڈیل بھی انہوں نے اس لیے قبول کی ہےکہ وہ ٹرمپ ایرا میں ایران کو کمزور کر سکیں، آنے والے ماہ و سال میں دنیا دیکھ لے گی کہ امریکا و اسرائیل ایرانی عوام کو اپنے تئیں قدامت پرستوں کے مذہبی جبر و استبداد سے چھٹکارا دلانے کیلئے کیا کچھ کرنے جا رہے ہیں؟