اشکراچی ( جنگ نیوز) امریکی جریدے فارن پالیسی کے "جنوبی ایشیا بریف" میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے میں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بدلنے سے سفارتی حیرتوں کا آغاز ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا نے اپنے ایک طویل ترین تنازعے کا خاتمہ دیکھا۔ بھارت اور پاکستان کی دیرینہ رقابت کاتازہ باب،افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیےمقابلے میں جہاں اب بھارت غالب نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا مطلب ہے کہ اسلام آباد کو خطے کے اس حصے میں ایک دوست مل گیا ہے، جہاں اس کے پاس سری لنکا کے علاوہ کوئی اور اتحادی نہیں ہے۔ بھارت کے آرمی چیف نے اعلان کیا کہ اس موسم سرما میں چین کے ساتھ متنازعہ سرحد پر فوج کی تعداد کم نہیں کی جائے گی، اور پاکستانی حکام نے کشیدگی کے درمیان اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔جریدے میں اپنے مضمون میں ولسن سنٹر کے ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا بریف کے مصنف مائیکل کوگل مین نے لکھا ہے کہ 2021 میں جنوبی ایشیا نے اپنے ایک طویل ترین تنازع کا خاتمہ دیکھا، افغانستان میں امریکا کی زیرقیادت جنگ ختم ہوئی، گزشتہ سال بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی ختم ہوئی جو خطے کی طویل ترین حکومتوں میں سے ایک تھی۔ ان تبدیلیوں نے دو حیرت انگیز سفارتی پیش رفتوں کو جنم دیا: بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان آہستہ آہستہ مضبوط ہوتے رشتے۔طالبان کے 2021 میں کابل میں اقتدار میں واپسی کے بعد، بھارتی حکام نے گروپ کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ بھارت نے 2022 میں کابل میں اپنا سفارت خانہ جزوی طور پر دوبارہ کھولا، جو حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اس کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے ہفتے، بھارت کے ایک اعلیٰ سفارتکار، وکرم مسری، نے قطر کے شہر دوحہ میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے سیکیورٹی اور معاشی معاملات پر بات چیت کی۔یہ اعلیٰ سطح کی شمولیت حیران کن ہے کیونکہ طالبان نے جنگ کے دوران بھارت کے حریف پاکستان کی وسیع حمایت پر انحصار کیا تھا۔ طالبان فورسز نے تنازعے کے دوران بھارتی اہداف پر حملے کیے، جن میں 2009 میں کابل میں بھارتی سفارت خانے کے باہر بم دھماکہ شامل ہے۔ طالبان کے پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ کے ساتھ بھی روابط ہیں، جسے بھارت نے 2014 میں افغانستان کے شہر ہرات میں اپنے قونصل خانے پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔جنگ کے خاتمے نے طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کو کم کر دیا۔ ان برسوں میں، طالبان نے افغانستان میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو روکنے سے انکار کیا، جس کی وجہ سے اسلام آباد کے ساتھ کشیدگی پیدا ہوئی۔ اس صورتحال نے بھارت کو مزید گنجائش دی کہ وہ افغانستان میں اپنی بنیادی دلچسپیوں کا تعاقب کرے: اس بات کو یقینی بنانا کہ افغان سرزمین بھارت کو دھمکانے کے لیے استعمال نہ ہو، اور ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی اور رابطہ روابط کو مضبوط کرنا۔اسی دوران، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے گزشتہ ستمبر میں نیویارک میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور تعلقات کو مضبوط کرنے کی اپیل کی۔