مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
ماہِ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے، یہ چار ماہ بطور خاص اللہ کے ہاں تقدس رکھتے ہیں، احترام رکھتے ہیں، اور عظمت والے ہیں۔ چنانچہ سورۂ توبہ کی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی دین کا سیدھا راستہ ہے۔
اس آیت میں جن چار مہینوں کو بارہ ماہ میں سے حرمت اور تقدس والا قرار دیا گیا ہے، ان مہینوں کی تعیین خود رسول اللہ ﷺنے فرمائی ہے، بخاری شریف میں حضرت ابوبَکرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے ان مہینوں کے بارے میں فرمایا : یہ جو چار مہینے ہیں ان میں تین مہینے تو متواتر آتے ہیں، ساتھ ساتھ ہیں، وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں، یہ مسلسل آنے والے مہینے ہیں، اور یہ عظمت والے ہیں ان کے ساتھ ایک مہینہ رجب کا ہے، جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے، ان مہینوں کی یہ وضاحت نبی کریم ﷺسے منقول ہے۔
یہاں ضمن میں ایک بات یہ بھی ہر مسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات کو سمجھنے کے لیے حدیث کے سہارے کی ضرورت ہے، نبی کریم ﷺکی احادیث یہ بھی ایک قسم کی وحی ہے ، البتہ قرآن کو ’’وحی متلُو‘‘ کہتے ہیں یعنی اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور احادیث مبارکہ، رسول اللہ ﷺکے کلام کو ’’وحی غیرمتلو ‘‘کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺقرآن کے شارح ہیں، قرآن کو بیان کرنے والے ہیں۔
قرآن کریم میں بہت سارے احکام کا بیان اجمالاً تھا، رسول اللہ ﷺنے ان اجمالی احکام کو عملی صورت میں اور اپنے اقوال سے واضح کرکےدکھایا۔قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا نماز قائم کرو، لیکن نماز کی عملی تفصیل رسول اللہ ﷺنے بتائی، اپنے ارشادات سے بھی اور خود نماز ادا کرکے بھی۔
بخاری شریف میں ایک صحابی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے یہ تفصیل نقل کی گئی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے قبیلے کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں آئے اور بیس دن تک وہاں ہم نے قیام کیا، پھر رسول اللہ ﷺنے ہمیں واپس جانے کی اجازت دی، اور کہا کہ اپنے گھر والوں کو جاکر دین سکھانا، اور نماز کے بارے میں فرمایا: اس طرح نماز ادا کرنا جیسے تم نے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔
قرآن کریم میں حج کا ذکر موجود ہے ، سورۂ آل عمران میں اس کی فرضیت بیان کی گئی ہے، لیکن تفصیلات رسول اللہ ﷺنے بتائی اور سکھائی ہیں، چنانچہ حج کی فرضیت کے بعد رسول اللہ ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں آخری جو حج ادا فرمایا ،جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں، اس موقع پر آپ ﷺنے اعمال، افعال ادا فرمائے، اور لوگوں سے فرمایا : تم حج کے اعمال سیکھ لو، مجھے دیکھ دیکھ کر، شاید کہ یہ میری زندگی کا آخری حج ہو۔ تو حرمت والے ان مہینوں کی تعیین اور وضاحت بھی رسول اللہ ﷺکے ارشادات میں موجود ہے۔
ان چار مہینوں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ ،محرم اور رجب کا احترام زمانہ جاہلیت میں بھی پایا جاتا تھا، لڑائی جھگڑے، قتل و غارت بالکل روک دی جاتی تھی، لوگ حج و عمرے کے لیے، تجارت کے لیے آزادی کے ساتھ سفر کرسکتے تھے، کوئی کسی کو روک ٹوک نہیں کرتا تھا، دین اسلام میں بھی ان کی عظمت کو باقی رکھا گیا، اس لیے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ چار ماہ ،اشہرُ حرم ہیں ، ادب والے ہیں، ان میں گناہ وظلم سے زیادہ بچنا چاہیے، ان کا ادب و لحاظ رکھنا چاہیے۔ ان مہینوں میں زیادہ عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اجر و ثواب بھی ان مہینوں میں بڑھ جاتا ہے۔
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں ان مہینوں کے متعلق لکھا ہے کہ :” ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اسے بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اسے ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے ۔“
اس لیے ایک تو ہر مسلمان کو اس مہینے کی اس عظمت کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی کوشش کرنی چاہیے، اور دوسرا یہ کہ اپنے آپ کو صغیرہ و کبیرہ ہر قسم کے گناہوں سے بچانا چاہیے، تاکہ اللہ تعالیٰ دیگر مہینوں میں بھی اسی طرح نیک اعمال کی توفیق بخشے اور گناہوں سے محفوظ رکھے۔
رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم ﷺاللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ "،اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہِ رمضان تک ہمیں پہنچا۔ اگرچہ اس روایت کی سند پر کلام ہے تاہم یہ دعا بذات خود مبارک دعا ہے، ہمیں ماہِ رجب کے شروع ہونے پر یہ دعا پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اور پورے مہینے میں وقتاً فوقتاً یہ دعا اللہ سے مانگتے رہیں ، یہ خیر اور برکت کی اور نیک اعمال کی توفیق کی دعا ہے جو ہمہ وقت کرنی چاہیے۔
عربی میں اگر دعا یاد نہ ہوتو اردو میں اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں کہ اے اللہ !ہمیں رجب و شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہمیں نیک اعمال کی توفیق کے ساتھ نصیب فرما۔
اگر کوئی شخص عام نفل روزوں کی نیت سے اس مہینے میں روزے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے تو یہ عمل درست اور اجر وثواب کا باعث ہے، لیکن اس مہینے کی تاریخوں کو متعین کرکے ان کی خاص فضیلت بیان کرنا یا ترغیب دینا ، یہ رسول اللہ ﷺسے منقول نہیں، بعض لوگ اس مہینے کے آغاز اور بعض اس مہینے کے اختتام پر بالخصوص 27 رجب کے روزے کو بڑی اہمیت اور خاص فضیلت والا روزہ سمجھتے ہیں، یہ نظریہ درست نہیں ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کو اس دن روزے سے منع فرماتے تھے۔ اس لیے کسی خاص عقیدے کی وجہ سے اس روزے کا اہتمام درست نہیں ، البتہ عام نفل روزے کی نیت سے کوئی شخص کسی بھی دن کا روزہ رکھتا ہے تویہ درست ہے کوئی حرج نہیں، بلکہ اس مہینے کی عمومی عظمت کے پیش نظر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مزید ثواب نصیب فرمائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ مہینہ حرمت اور عظمت والا ہے، اس ماہ سے ہی رمضان کی تیاری کا آغاز کردینا چاہیے، اور کثرت سے عبادت میں لگنا چاہیے، ہر طرح کے گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ کی اور اگلے ماہ شعبان کی قدر نصیب فرمائے، نیک اعمال کی توفیق بخشے، گناہوں سے ہماری حفاظت فرمائے، اور ماہ رمضان تک ہمیں پہنچنے اور اس مہینے کی رحمتیں برکتیں اور بخشش سمیٹنے کی بھی سعادت عطا فرمائے۔ (آمین)