ڈاکٹر نعمان نعیم
عہد ِنبویؐ میں خواتین کی تعلیم و تربیت
اسلامی تاریخ اورسیرت ِ طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ عہد نبوی ؐ میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے متعدد اقدامات اور انتظامات کیے گئے۔ اگرچہ اسلامی ریاست اس وقت اپنی ارتقائی منازل طے کر رہی تھی اور منظم تعلیمی ادارے موجود نہ تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کی تعلیمی سرگرمیوں اور حکمتِ عملی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین کی تعلیم کو کس طرح منظّم اور مؤثر انداز میں فروغ دیا گیا۔
یہ تعلیم نجی محافل، مساجد، اجتماعی تقریبات، اور گھریلو تربیت کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی۔ خواتین کو دین کی بنیادی تعلیمات، سماجی ذمہ داریوں اور اخلاقی اقدار سے روشناس کروانے کے لیے مواقع فراہم کیے گئے۔ ان سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کی تعلیم کو اس دور میں بنیادی اہمیت دی گئی اور ان کے لیے ایسا طریقہ کار وضع کیا گیا جو ان کے کردار اور ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہو۔سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کی تعلیمی مجالس کی درج ذیل شکلیں تھیں:
گھروں میں تعلیم :۔ عہد نبوی ؐمیں خواتین کی تعلیم بالعموم ان کے گھروں پر ہوتی تھی، جنہیں مرد انجام دیتے۔ آنحضرت ﷺ نے مردوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ خواتین کو بھی تعلیم دیں، مثلاً سورۂ نور کے متعلق ارشاد فرمایا: تم خود بھی انہیں سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ۔
باہر سے آنے والے نوجوانوں کے ایک وفد کو چند دن تعلیم دینے کے بعد آپ ﷺنے فرمایا: تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، انہیں علم سکھاؤ اور ان سے دینی احکام پر عمل کرواؤ۔( شعب الایمان، ذکر السبع الطوال، رقم: 2205)
صحابہ کرام ؓ اپنی خواتین اور بچوں کو گھروں میں بھی تعلیم دیتے تھے، بعض اوقات خواتین کی تعلیم کے لئے گھر کے باہر کے کسی مرد کا بھی انتظام کیا جاتا جیسا کہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہؓ اور ان کے شوہر اپنے گھر میں حضرت خباب بن ارت ؓ سے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، جس کی خبر حضرت عمر ؓ کو ہوئی، تو ان کے گھر میں داخل ہو کر بہن اور بہنوئی کو زد و کوب کیا مگر بہن کی جرأت و استقامت اور قرآنی آیات کی اثر انگیزی نے حضرت عمر فاروقؓ کو اسلام لانے پر مجبور کر دیا۔
جیسا کہ ابن اسحاق کی روایت میں ہے: حضرت عمرؓ کے ایک بیان کے مطابق خباب بن الارت ؓمیری بہنوئی کے گھر آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔( ابن ہشام، السيرۃ النبویہ، اسلام عمر بن الخطاب، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ، مصر، 1/382)
بعض اوقات تعلیم کے لئے کوئی گھر مخصوص کر لیا جاتا اور نبی کریمﷺ خود تشریف لے جاتے ،جیسا کہ بخاری اور مسلم میں ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ: ترجمہ: ایک خاتون نے آکر عرض کیا۔ " اے اللہ کے رسولﷺ ! مرد آپ کی باتیں ساتھ لے جاتے ہیں اور ہم محروم رہ جاتی ہیں، اس لئے آپﷺ ہمارے لئے ایک دن مقرر کر دیجئے جس میں ہم خواتین کو جمع کریں اور آپ اللہ کے دیئے ہوئے علم میں سے ہمیں بھی کچھ عطا فرمائیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: فلاں دن فلاں گھر میں اکٹھی ہو جاؤ ،وہ جمع ہوگئیں اور آپﷺ نے انہیں اللہ کے دیئے ہوئے احکام کی تعلیم دی۔( صحیح بخاری، کِتَابُ العِلْم)
مساجد اور عید گاہوں میں تعلیم :۔ عہدِ نبویؐ میں خواتین کی تعلیم کا ایک اہم ذریعہ مساجد تھیں۔ خواتین نبی کریم ﷺ کے خطبات اور مواعظ سے مستفید ہوتیں۔ بعض اوقات آپ ﷺنماز سے فراغت کے بعد عورتوں کی جانب تشریف لے جاتے اور انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، جیسا کہ ابن عباس ؓ کی ایک روایت پیچھے گزری جس میں آپ ﷺ نے خواتین کو صدقے کا حکم دیا۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ عید کے موقع پر پیش آیا۔ غالباً تعلیمی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے صحابہؓ کو خواتین کی مساجد میں آمد کو روکنے سے منع فرمایا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے مت روکو۔(صحیح مسلم، کِتَاب الصَّلَاۃ)
چنانچہ خواتین شرعی آداب و حجاب کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مساجد میں حاضر ہوتی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے خواتین کے لئے خصوصی ہدایت فرمائی تھی کہ عید کے دن اپنی عورتوں کو حتیٰ کہ جوان لڑکیوں کو بھی لے کر عید گاہ کی طرف نکلیں۔(صحیح بخاری ، کِتَاب الاذان) یقیناً اس اہم موقع پر انہیں دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ دین کی بہت سی باتیں بھی سیکھنے کا موقع ملتا تھا، جیسا کہ ام عطیہؓ کی روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں گھروں سے نکالیں۔
نوجوان ، پردہ نشیں عورتوں کو ، حیض والی عورتیں نماز سے علیحدہ رہیں گی مگر خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں گی۔ میں نے عرض کیا: " اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی تو کیسے نکلے ؟ " فرمایا: " اس کی کوئی بہن اسے چادر اوڑھا دے۔(صحیح مسلم، کتابُ الصَلاۃ)
عہدِ نبوی ﷺ میں خواتین کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی، جہاں وہ نہ صرف باجماعت نماز میں شریک ہوتیں، بلکہ دین کی تعلیمات، اخلاقی تربیت، اور سماجی آداب سے بھی آگاہی حاصل کرتیں۔ اس دوران نبی کریم ﷺ خواتین کے سوالات کے جوابات دیتے اور انہیں خصوصی نصیحت فرماتے۔
تاہم، مساجد میں حاضری کے لیے کچھ آداب کا پابند بنایا گیا، تاکہ عبادت اور تعلیم کے ماحول کو پاکیزہ اور پرسکون رکھا جا سکے۔ خواتین کو سادگی اور حیاداری کے ساتھ مسجد آنے کا حکم دیا گیا، جیسا کہ انہیں خوشبو لگانے اور غیر ضروری زینت سے اجتناب کرنے کی تاکید کی گئی۔
مردوں اور خواتین کے لیے الگ صفیں بنائی جاتیں تھیں، تاکہ عبادت کے دوران یکسوئی اور احترام کا ماحول برقرار رہے، بعض اوقات مردوں اور عورتوں کے ہجوم سے بچنے کے لیے خواتین کے لیے الگ راستہ یا مخصوص وقت کا تعین کیا جاتا۔
خواتین کو دین سے متعلق سوالات کرنے اور علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی، لیکن اس میں ادب اور حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تاکید کی گئی۔ یہ آداب خواتین کی عزت، حیاء، اور عبادات میں خشوع کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیے گئے اور عہد نبوی ﷺ میں ان کی سختی سے پاسداری کی جاتی تھی۔
مخلوط اور علیحدہ مجالس میں تعلیم :۔ عہد نبوی ﷺ میں عمومی طور پر مساجد میں نماز کے وقت خواتین کی صفیں علیحدہ اور مردوں کے پیچھے ہوتی تھیں، لیکن اس کے ساتھ ایسی شہادتیں بھی موجود ہیں کہ خواتین بعض اوقات مجلس نبوی ﷺ میں شریک ہو جاتی تھیں اور مردوں کی موجودگی میں آپ ﷺ سے نجی نوعیت کے سوالات بھی کرتی تھیں۔
نبی کریم ﷺ نے خواتین کو سوالات کرنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ان کے مسائل کو حکمت اور نرمی سے حل کیا، اس بات کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کہ دین کی تعلیم اور رہنمائی کے لیے شرم و حیاء کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سوال کرنا ضروری ہے۔ یہ رویہ اسلامی معاشرے میں خواتین کی دینی تعلیم اور شعور کو پروان چڑھانے کے لیے ایک اہم مثال ہے۔
البتہ اس کے شواہد بکثرت ہیں کہ مساجد اور عید گاہوں میں خطبے کے دوران ان کی نشست مردوں سے علیحدہ ہوتی تھی اور عہد نبوی میں خواتین خود بھی اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ ان کے لیے علیحدہ تعلیم کا انتظام کیا جائے، جیسا کہ ابو سعید خدری ؓ کی روایت گزر چکی ہے کہ جس میں خود خواتین نے اپنے لئے علیحدہ مجلس میں تعلیم دینے کی درخواست فرمائی جسے آپﷺ نے قبول فرمایا۔
اس کے ساتھ ساتھ جب مسجد نبوی میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو آنحضرت ﷺ نے اختلاط سے بچنے کے لئے مسجد نبوی میں ان کی آمد ورفت کے لئے ایک علیحدہ دروازہ مخصوص فرمایا جسے ’’باب النساء ‘‘کا نام دیا گیا۔
کاشانۂ نبویؐ میں تعلیم : دور رسالت میں خواتین کی سب سے بڑی درس گاہ خود کاشانۂ نبوت تھا، جہاں خواتین کی آمد ورفت کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا اور وہ براہ راست رسول اللہ ﷺ سے سوالات پوچھتیں، بالعموم یہ سوالات ازواج مطہرات ؓکی موجودگی میں ہوتے، جن سے وہ خود بھی مستفید ہوتیں اور بسا اوقات ازواج مطہراتؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے بھی علمی استفادہ کرتیں۔
بعض امور جو مزید وضاحت طلب ہوتے یا خواتین کو براہ راست پوچھنے میں جھجک ہوتی تو وہ ازواج مطہراتؓ کی وساطت سے معلومات حاصل کر لیتی تھیں۔ اس آمد ورفت سے جو دینی تعلیمات حاصل ہوئیں جو مختلف اور متنوع موضوعات پر مبنی ہیں اور احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ان صحابیات کے ذریعے امت تک پہنچا جو نہ صرف خواتین سے متعلق مخصوص احکام پر مشتمل ہے، بلکہ دین کی عمومی تعلیمات اور آفاقی احکام کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہے۔
حصول علم کے لیے خواتین کاذوق و شوق :۔ علم کے فروغ کے لئے آنحضرت ﷺکی خصوصی دلچسپی، توجہ اور ترغیبات کا نتیجہ تھا کہ خواتین نے اپنی تعلیم کے لئے آپ ﷺسے علیحدہ دن مقرر کرنے کی درخواست کی جسے آپ ﷺ نے شرف قبولیت عطا فرمایا اور وہ بلا تکلف رسول اللہ ﷺ سے سوالات کرتی تھیں۔
خود آپ ﷺ نے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی انصاری عورتوں کے علمی اشتیاق کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور ان تاثرات کا اظہار فرمایا: انصار کی عورتیں بہت اچھی ہیں جنہیں دین کے مسائل دریافت کرنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔( صحيح مسلم، رقم: 500) ( …جاری ہے …)