مولانا محمد راشد شفیع
’’توکل‘‘انسان کے دل کا وہ سکون ہے جو اللہ پر کامل بھروسے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی ایک اعلیٰ صفت ہے جو بندے کو دنیاوی معاملات میں بے خوف اور پُرسکون رکھتی ہے۔ توکل کا مطلب یہ نہیں کہ عمل ترک کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہر ممکن کوشش کے بعد نتیجہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔
یہ یقین کہ ہر چیز اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی، دل کو اطمینان بخشتا ہے۔ توکل انسان کو ناامیدی سے بچاتا اور اسے صبر و شکر کی راہ دکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اعتماد ہے جو اللہ کی قدرت اور رحمت پر مبنی ہے۔ مومن توکل کے ذریعے اپنی تمام مشکلات کو آسان سمجھتا ہے۔
توکل کا مظہر یہ ہے کہ بندہ اسباب اختیار کرنے کے ساتھ دعا اور بھروسے کو ساتھ رکھے۔ یہ دنیا کی فانی مشکلات کے سامنے ایک ڈھال ہے۔ توکل کا مقام حاصل کرنے والا بندہ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ توکل ایک ایسی روشنی ہے جو بندے کو ہر اندھیرے سے نکال کر ہدایت کی راہ پر ڈالتی ہے۔
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ نے توکل کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: ’’پھر جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ پر بھروسا کریں، بے شک، اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ مشورہ کرنے کے بعد جب کسی معاملے پر عزم کرلیں تو اللہ پر توکل کریں۔
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ کسی بھی کام میں اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے، لیکن اصل نتیجہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی محنت کے بعد اپنی امیدیں اللہ سے وابستہ کرتے ہیں۔
سورہ ٔانفال میں ہے:’’مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔ یہ آیت ایمان کی صفات بیان کرتی ہے، جن میں سے ایک اللہ پر توکل ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو اللہ کے ذکر سے خشیت محسوس کرے، اس کا ایمان بڑھتا جائے اور تمام معاملات میں اللہ پر اعتماد کرے۔ توکل کی یہ صفت بندے کو اللہ کی رحمت اور قدرت کے قریب کرتی ہے۔
سورۃ الشوریٰ میں ارشادِ ربّانی ہے:"جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں"۔
احادیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے توکل اختیار کرنے پر اللہ کے انعامات بیان فرمائے ہیں، چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ پر ایسے توکل کرو، جیسے توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں ایسے رزق دے گا، جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں‘‘۔(جامع ترمذی، حدیث: 2344)
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ستّر ہزار افراد بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ لوگ وہ ہیں جو نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں، نہ بدفالی لیتے ہیں، نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔(صحیح بخاری)
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:’’میں اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ کر توکل کروں یا باندھ دوں؟آپ ﷺ نے فرمایا: 'پہلے باندھ دو، پھر توکل کرو۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث: 2517)ایک اور مقام پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم دعا کرتے ہو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ اللہ اسے قبول کرے گا‘‘۔(سنن ترمذی، حدیث: 3479)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ توکل کا مطلب ہے اللہ پر مکمل بھروسا اور یقین رکھنا، ہر معاملے میں اس کی قدرت و حکمت پر اعتماد کرنا۔ یہ ایمان کا ایک اہم حصہ ہے جو انسان کو آزمائشوں اور مشکلات میں سکون و اطمینان بخشتا ہے۔ توکل کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جدوجہد چھوڑ دے، بلکہ اپنے اسباب کے ساتھ دل سے اللہ پر بھروسا کرے۔
یہ یقین دلانا کہ رزق، کامیابی اور مدد صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ توکل کرنے والا شخص دنیاوی معاملات میں حریص نہیں ہوتا اور نہ ہی ناکامی سے مایوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اللہ ہی پر بھروسا کرنے والوں کو وہ کافی ہے‘‘۔ توکل انسان کے دل کو مضبوط اور زندگی کو پُرامن بناتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توکل جیسی عظیم دولت سے مالا مال فرمائے۔(آمین)