تفہیم المسائل
سوال: دو شخصوں کے درمیان آباد کاری کے ایک پروجیکٹ پر معاہدہ ہوا ، ایک فریق کی زمین ہے اور دوسرا اُس پر تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس صورت میں دونوں کے درمیان نفع کی تقسیم اور تناسب کس اعتبار سے ہوگا؟ (منوراحمد ، کراچی)
جواب: اس مسئلے پر ہمارے معاصر علماء نے یہی حکم بیان کیا ہے کہ شرکت کے درست ہونے کے لیے ہر شریک کے سرمایہ کا نقد ہونا ضروری ہے اور اس کے جواز کی صورت یہ بیان کی ہے:’’فریقین نصف نصف زمین کا آپس میں سودا کرلیں، بلڈر آدھی زمین خرید لے اور زمین کے مالک کو آدھی زمین کی قیمت ادا کردے، تاکہ زمین میں دونوں آدھے آدھے کے شریک ہوجائیں۔
اس کے بعد دونوں نقد سرمایہ ملا کر اس پر مشترکہ رقم سے تعمیر کریں اور پھر نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوں گے ‘‘،تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’ اور شرکت اسباب وسامان کے ساتھ صحیح ہوتی ہے، عرض سے مراد وہ سامان جو دراہم ودینار کے علاوہ ہو اور منتقل کیاجاسکتا ہو، ’’بحوالہ: قاموس‘‘، اگر ان میں سے ایک نے اپنا نصف سامان دوسرے کے نصف سامان کے عوض فروخت کردیا ،پھر انھوں نے اس میں شرکت عقد کرلی، چاہے شرکتِ مفاوضہ ہو یا شرکتِ عنان۔
یہ سامان کے ساتھ شرکت کے صحیح ہونے کا ایک حیلہ ہے اور یہ تب ہے ، جب دونوں کا سامان قیمت کے اعتبار سے برابر ہو اور اگر دونوں میں قیمت کے اعتبار سے فرق ہو تو قلیل سامان والا اتنی مقدار کے عوض فروخت کردے، جس کے ساتھ شرکت ثابت ہوجاتی ہے ،’’بحوالہ:ابن کمال‘‘ ۔ پس مصنف کے کلام میں : ’’بِنِصْفِ عَرْضِ الْآخَرِ‘‘ کی قید (احترازی نہیں بلکہ) اتفاقی ہے ، (جلد4،ص:310)‘‘۔
علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ہر ایسا مال جو تعیین سے متعین ہوجاتا ہے، اس میں عقدِ شرکت کے جائز ہونے کا حیلہ یہ ہے کہ ہرایک اپنا نصف مال دوسرے کے نصف مال کے عوض فروخت کردے، یہاں تک کہ ہرایک کا نصف مال ہو، پس دونوں میں شرکت قائم ہوجائے گی، پھر اس کے بعد دونوں عقدِ شرکت کریں ، کسی اختلاف کے بغیریہ عقدِ شراکت جائز ہوجائے گا ، ’’بدائع الصنائع میں اسی طرح ہے،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد2، ص:307)‘‘۔
فریقین کی طرف سے سرمایہ اور محنت ہو تو اسے فقہی اصطلاح میں شرکتِ عنان کہتے ہیں اور اگر سرمایہ فریقین کی طرف سے ہو اور محنت ایک فریق کرے تو اسے بھی شرکتِ عنان ہی شمار کرتے ہیں، جبکہ دیگر فقہائے کرام کے ہاں کم از کم اس میں مضاربت اور عنان دونوں پائے جاتے ہیں، چنانچہ بعض اہل علم نے شرکتِ عنان کے درست ہونے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ سرمایہ لگا کر ساتھ میں محنت کرنے والے کو دوسرے فریق سے زیادہ منافع ملنا چاہیے، اگرچہ یہ شرط ضروری نہیں ہے۔
’المجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں ہے :ترجمہ:’’ کام بھی ان چیزوں میں سے ہے، جن کی قیمت مقرر کی جاتی ہے یعنی عمل کی باقاعدہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے اور یہ جائز ہے کہ ایک شخص کا عمل( اُس کی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے) دوسرے شخص کے عمل سے زیادہ قیمتی قرار پائے، مثلاً: جب دو شراکت داروں نے ایک شرکت قائم کی، سرمایہ دونوں کا برابر تھا اور یہ بھی شرط تھی کہ دونوں کام کریں گے۔
اُس کے باوجود اگر معاہدۂ شرکت میں یہ شرط بھی رکھ دی جائے کہ ایک شریک ،منافع میں سے زائد حصہ لے گا ،تویہ شرط جائز ہوگی، کیونکہ ہوسکتاہے کہ ایک شریک دوسرے کے بہ نسبت خرید وفروخت میں زیادہ مہارت رکھتاہو اور اس کاکام زیادہ نفع بخش ہو،(مجلۃ الاحکام العدلیہ ، مادہ:1345)‘‘۔
شراکت داری میں اصول یہ ہے: خسارہ رأس المال کے تناسب سے ہوتا ہے، جبکہ منافع میں تناسب سب فریقوں کی باہمی رضامندی سے طے کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اگر دو لوگ اپنا مال شامل کر کے کاروباری شراکت قائم کرتے ہیں تو دونوں میں خسارہ ان کے سرمائے کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔اَلْمُوسُوعَۃُ الْفِقْہِیَّۃ میں ہے : ترجمہ:’’ یہ کہ دو یا دو سے زیادہ افراد کاروباری شراکت میں سرمایہ اور محنت دونوں شامل کریں ، خواہ اس کے تناسب میں تفاوت(کم یا زیادہ) ہوں، دونوں کام کریں یا اُن میں سے ایک کام کرے اور دوسرے سے زیادہ منافع حاصل کرے اور اس میں شرط ہوگی کہ (ہر فریق کا) سرمایہ معلوم ہو، خواہ نقد کی صورت میں ہو یا سامان کی صورت میں، جس کی قیمت طے کردی گئی ہو اور نفع اور نقصان کا تناسب مشترک مال میں ہرفریق کے حصے کے تناسب سے بھی ہو سکتا ہے یا باہمی رضامندی سے اس کے برعکس بھی طے کیا جاسکتا ہے،(جلد 2،ص:454)‘‘۔لیکن بہر صورت نفع ونقصان میں تناسب پہلے سے طے ہونا ضروری ہے، تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیدانہ ہو ۔
صورتِ مسئولہ میں زمین کا مالک اپنی زمین کی قیمت مقررکرے اور بلڈر اس پر تعمیر ہونے والے پروجیکٹ کے کل تعمیری مصارف کا تخمینہ لگائے اور دونوں اپنے اپنے سرمائے کی مقدار کے مطابق تناسب قائم کرلیں اور نفع بھی اسی اعتبار سے تقسیم کرلیں یا باہمی رضامندی سے اس کی شرح یا تناسب مقرر کرسکتے ہیں، یعنی لازم نہیں ہے کہ سرمائے کے تناسب سے ہی نفع کی تقسیم ہو کیونکہ پیشہ ورانہ مہارت ، کاروباری سوجھ بوجھ اور محنت سب کی یکساں نہیں ہوتی اور اس کا کاروباری لوگوں کو خوب اندازہ ہوتا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب )