تھائیرائیڈ گلینڈز نامی غدود جسم میں خاص مقدار میں ہارمونز خارج کر کے تمام افعال میں باقاعدگی کا ذمے دار ہوتا ہے۔
جسم کے تمام خلیوں کو توانائی دینے والے مذکورہ ہارمونز کی کمی یا زیادتی تھائیرائیڈ گلینڈ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد تھائیرائیڈ گلینڈ سے متعلق مختلف بیماریوں کا شکا ر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس بیماری کی شرح مَردوں میں 4 سے 5 فیصد جبکہ خواتین میں 10 سے 12فیصد تک ہوتی ہے، تاہم قدرت نے تھائیرائیڈ سمیت ہر بیماری کا علاج مختلف غذائی اجزاء میں پوشیدہ رکھا ہے۔
تھائیرائیڈ گلینڈز کو اپنے افعال بہتر طور پر سر انجام دینے کے لیے 15 سے 20 ملی گرام آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔
آیوڈین کی اس کمی کا مسئلہ صرف پاکستانی باشندوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے افراد کو بھی درپیش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین تھائیرائیڈ کے مریضوں کو آیوڈین والا نمک اور ڈیری مصنوعات تجویز کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ قدرتی طور پر آیوڈین کی ایک اچھی مقدار سمندری خوراک مچھلی، جھینگے وغیرہ میں کثرت سے پائی جاتی ہے لیکن ان غذاؤں کا استعمال اعتدال میں ضروری ہے بصورتِ دیگر یہ نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
تھائیرائیڈ کو متوازن اور متحرک بنانے کے لیے جسم کو زیادہ مقدار میں خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے ماہرین غذائی اجزاء میں کیلوریز کے اضافے کا مشورہ دیتے ہیں۔
دودھ اور گوشت کے علاوہ سبزیوں کا استعمال بھی زیادہ کرنا چاہیے، خاص طور پر ہری سبزیاں مثلاً پالک، سلاد، پتہ وغیرہ، ہری سبزیاں میگنیشیئم کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔
کاجو، بادام اور کدو کے بیج آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق تھائیرائیڈ کے مریضوں کے لیے میوہ جات ناصرف آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں بلکہ ان میوہ جات میں سیلینیئم کی بھی کافی مقدار پائی جاتی ہے، یہ مقدار تھائیرائیڈ گلینڈ کے افعال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
دن بھر میں مٹھی بھر میوہ جات سیلینیئم کی مطلوبہ مقدار کو پورا کر دیتے ہیں۔
ناشتے میں دلیے کا انتخاب بہترین ہے، جَو (oats) گلوٹین سے پاک ہوتے ہیں لیکن ان کو اسی جگہ پروسیس کیا جانے کا خدشہ ہوتا ہے جہاں گلوٹین پر مشتمل دوسرے اناج پروسیس ہوتے ہیں، اس لیے اس کی خریداری کرتے وقت لیبل پر ’گلوٹین سے پاک‘ دیکھنا مت بھولیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی نے اسے پروسیس کرنے میں گلوٹین والی غذاؤں والی جگہ استعمال نہیں کی۔
اوٹس کو بادام یا تازہ پھلوں کے ساتھ کھانے کی کوشش کریں۔
چاول اور گندم تو لوگوں کی بنیادی غذا ہے، چاول میں موجود سیلینیئم جِلد، جھلیوں اور تھائیرائیڈ کو صحت مند رکھتا ہے۔
رات کے کھانے میں بھنی ہوئی بروکلی اور براؤن چاول کے ساتھ گرل سالمن کھائی جا سکتی ہے، بس اس بات کو یقینی بنائیں کہ کھانے کی تیاری کے لیے جو نمک استعمال کرتے ہیں وہ آیوڈائزڈ نہ ہو۔
پھلوں اور سبزیوں سے متعلق یہ بات اہم ہے کہ تھائیرائیڈ کے مریضوں کو تمام سبزیوں اور پھلوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
مثلاً آڑو، ناشپاتی، شلجم، چقندر اور پھول گوبھی کیونکہ ان میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو بیماری کو بڑھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ طبی ماہرین ان مریضوں کے لیے مرغن اور زیادہ مسالے دار غذائیں، جن سے قبض ہونے کا اندیشہ ہو، ان کے استعمال سے بھی گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔