مولانا طارق نعمان
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نمازِ تہجّد کے لیے حاضری دینا یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑے بڑے مرتبے حاصل کر لیتا ہے۔ رات کی تنہائی میں بندہ راحت اور آرام کو چھوڑ کر سردی اور گرمی کی شدت برداشت کر کے وضو کرکے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو اپنے قرب ولطف سے مالامال فرما دیتا ہے۔ فرائض کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نمازِ تہجد ہے۔
نمازِ تہجّد کی فضیلت قرآنِ مجید کی روشنی میں
قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس نماز کی اہمیت و فضلیت بیان ہوئی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: ’’اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی)قیام میں۔‘‘ (سورۃ الفرقان: ۶۴):ترجمہ ’’بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے ) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار سے رحمت کا امید وار ہے؟ کہوکہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، سب برابر ہیں؟۔‘‘ (سورۃالزمر: ۹):ترجمہ: ’’اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہوجاؤ۔‘‘ (سورۂ طٰہ:۱۳۰):ترجمہ’’بے شک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جو جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے۔‘‘ (سورۃ المزمل:۶): ترجمہ’’اے پیغمبر! تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔‘‘(سورۃ المزمل:۲۰): ترجمہ ’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو، جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے، اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں مقامِ محمود تک پہنچائے گا۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل: ۷۹)
نمازِ تہجّد کی فضیلت احادیثِ نبویہ کی روشنی میں
نبی کریم ﷺ کے فرامینِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور مختلف قسم کی ترغیبات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں ’’جب حضور اقدس ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ ﷺ کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ حضور ﷺ تشریف لائے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا، تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپ ﷺ نبی ہیں یا نہیں؟) میں نے آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک دیکھ کر کہا کہ: یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔
وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضور ﷺ کی زبان سے سنا، وہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘ (قیام الّلیل)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات (تہجد) کی نماز ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم)
حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب رات کے وقت آدمی اپنی بیوی کو جگائے اور دونوں دور کعتیں پڑھیں یا ایک دو رکعت پڑھے تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں اور ذکر کرنے والیوں میں سے لکھ دیئے جاتے ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی گدی پر جب وہ سوتا ہے تو شیطان تین گرہیں لگا دیتا ہے، ہر گرہ پر یہ کہتا ہے کہ تیرے لیے رات بہت لمبی ہے، پس خوب سو۔ اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ وضو بھی کر لیتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ نماز بھی پڑھ لیتا ہے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ صبح اس حال میں کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور پاکیزہ نفس ہوتا ہے، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ خبیث النفس اور سست ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب عقد الشیطان علی قافیۃ الرأس إذا لم یصل باللیل، صحیح مسلم، کتاب صلا ۃالمسافرین وقصرہا)
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جو آبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) ان کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں۔‘‘ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)
حضرت بلال حبشی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے، گناہوں سے روکنے اور حسد سے دور کرنے والی چیز ہے۔‘‘ (قیام اللیل)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تین قسم کے آدمیوں سے حق تعالیٰ شانہ بہت خوش ہوتے ہیں: ایک اس آدمی سے جو رات کو (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑا ہو، دوسرے اس قوم سے جو نماز میں صف بندی کرے، اور تیسرے اس قوم سے جو جہاد میں صف بنائے (تاکہ کفار سے مقابلہ کرے)۔‘‘ (قیام اللیل)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو وہ فرماتا ہے: کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا، تاکہ میں اس کی مغفرت کروں، (یہ وقت نمازِ تہجد کا ہی ہوتا ہے جس وقت باری تعالیٰ یہ صدا لگاتاہے )۔
نمازِ تہجّد کی نیت کا طریقہ
نمازِ تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کر رہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد کی نیت اس طرح کرے: ’’نویتُ أن أصلّيی رکعتی صلاِۃ التہجدِ سنۃ النبِیِ ﷺ‘‘ یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ: ’’میں دو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں۔‘‘ اللہ اکبر! نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھے گا، تب بھی تہجد کی نماز ہوجائے گی۔
نمازِ تہجّد کا وقت
تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے، باقی عشا ء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہوجائے گی، نیز تہجد کے لیے سونا شرط نہیں ہے، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: لفظ تہجد ’’ہجود‘‘ سے مشتق ہے، اور یہ لفظ دو متضاد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے بیدار ہونے کے بھی۔
اسی رات کی نماز کو اصطلاحِ شرع میں نمازِ تہجد کہا جاتا ہے، اور عموماً اس کا مفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیر سوکر اُٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے، وہ نمازِ تہجد ہے، لیکن تفسیرِ مظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت ’’ومن اللیل فتہجد بہٖ‘‘ کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصے میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیر سونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے، اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کو مؤخر کرکے نماز پڑھنے پر بھی صادق ہے، اس لیے نمازِ تہجد کے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پر استدلال کیا ہے۔
امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازِ تہجد کی جو تعریف نقل کی ہے، وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ نمازِ تہجد ہر اس نماز پر صادق ہے جو عشا ء کے بعد پڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اسے کچھ نیند کے بعد پر محمول کیا جائے گا۔ ‘‘
اس کا حاصل یہ ہے کہ نمازِ تہجد کے اصل مفہوم میں ’’بعدالنوم‘‘ ہونا شرط نہیں، اور الفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً تعامل رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا یہی رہا ہے کہ نمازِ آخر رات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے، اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔ ( …جاری ہے …)