تفہیم المسائل
سوال: رشوت کسے کہتے ہیں؟ کوئی سرکاری ملازم تعلقات کی بنا پر کسی کا کام کروادے، اُس کے عوض کچھ دینا بھی رشوت ہے اور اگر طلب کیے بغیر اُس کو کچھ دے دیا جائے تو کیا یہ بھی رشوت کہلائے گا؟
جواب: اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ (بطور رشوت) وہ مال حاکموں تک پہنچاؤ تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے ساتھ کھاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ یہ فعل ناجائز ہے)،(سورۂ بقرہ:188)‘‘۔
حدیث پاک میں ہے: حضرت ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے رشوت دینے والے، رشوت لینے والے اور رائش یعنی دونوں کے درمیان معاملہ طے کرانے والے پرلعنت فرمائی ہے، (مُصنف ابن ابی شیبہ :22398)‘‘۔ علامہ سید شریف جرجانی لکھتے ہیں: ’’وہ مال جو کسی کے حق کو باطل کرنے یا کسی باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے دیا جائے، (تعریفات:98)‘‘۔
علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی لکھتے ہیں : ’’رشوت اصل میں ’’رشاء‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’رشاء‘‘ اصل میں ڈول کی اس رسّی کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔ ’’راشی‘‘ وہ شخص ہے، جو کسی باطل چیز کو حاصل کرنے کے لیے کسی کی مدد کرتا ہے اور ’’مُرتشی‘‘ رشوت لینے والے کو کہتے ہیں، ’’رائش‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو راشی اور مرتشی کے درمیان معاملہ طے کراتا ہے۔
جو چیز حق کو حاصل کرنے کے لئے دی جائے یا ظلم کو دور کرنے کے لئے دی جائے، وہ رشوت نہیں ہے اور اَئمۂ تابعین سے منقول ہے کہ اپنی جان اور مال کو ظلم سے بچانے کے لیے رشوت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، (تاج العروس، جلد 10 ص: 150)‘‘۔
یہ اس صورت میں ہے کہ رشوت دینے کے سوا ظلم سے بچنے کی کوئی تدبیر نہ ہو ۔امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندی المعروف علامہ قاضی خان حنفی مُتوفّٰی 594ھ نے رشوت کی چاراقسام بیان کی ہیں: ترجمہ:’’ رشوت کی چار قسمیں ہیں: پہلی دو صورتوں میں بہرصورت رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں: (۱)منصبِ قضا (یعنی جج کے منصب) کو حاصل کرنے کے لئے رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں اور ایسا شخص قاضی بننے کا اہل نہیں رہتا۔(۲) قاضی سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے رشوت دینا،خواہ وہ فیصلہ حق پر مبنی ہو یا ناحق ہو۔(۳) دونوں صورتوں میں رشوت لینا بہرصورت حرام ہے، دینے والے کے لئے کسی درجے میں عذر ہے۔
ایک یہ کہ ایک شخص کی جان اورمال خطرے میں ہو اور رشوت دیئے بغیر اس کے لئے تحفظ کی کوئی صورت نہ ہو۔ اِسی طرح جب کوئی (ظالم ) اُس کے مال کو ہتھیانا چاہتا ہو یا ہڑپ کرنا چاہتا ہو اور یہ کچھ مال بطور رشوت دے کر اپنے بقیہ مال کو بچالے ۔(۴) یہ کہ وہ حاکم وقت تک رسائی کے لئے رشوت دے،(فتاویٰ قاضی خان علیٰ ہامش الہندیہ، جلد2،ص:362-363)‘‘۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیاجائے کہ رشوت کے لئے گنجائش نکالی جارہی ہے، ہرگز نہیں۔ عزیمت یہی ہے کہ ہرمشکل کامقابلہ کرے اور کسی صورت میں رشوت نہ دے، مگر ہرشخص صاحبِ عزیمت نہیں ہوتا۔ زندہ معاشروں کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ برائی کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اجتماعی قوت سے برائی کی مزاحمت کرتے ہیں، اسے آج کل Social Resistance کہا جاتا ہے اور منصبی اختیار اور طاقت سے لیس لوگ پورے معاشرے کو زیر نہیں کرسکتے، مگر جب معاشرہ منقسم ہوجائے اور بعض لوگ شر اوراہل شر کے معاون بن جائیں ،تو پھر معاشرہ بہ حیثیت مجموعی اخلاقی زوال کا شکار ہوجاتا ہے اور اجتماعی قوت ِمزاحمت جواب دے دیتی ہے۔
آج کل اِغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا کلچر سب کے سامنے ہے۔ جب حکومت اور قانون تحفظ نہ دے، جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے لئے رشوت یابھتہ یا تاوان ہی کی صورت باقی رہ جائے، تو پھر جان ومال اور آبرو کا تحفظ مقدم ہے، ایسی ناگزیر اور اضطراری صورت حال کے لئے فقہائے کرام نے رخصت بیان کی ہے اورجبر کی یہ صورت سب کے سامنے ہے، کیونکہ جان کا تحفظ بہر حال مقدم ہے ، بقائے جان کے لئے حالتِ اضطرار میں شریعت نے بقدرِ ضرورت حرام کھانے کی اجازت دی ہے۔
رشوت کی اِن اقسام کو علامہ کمال الدین ابن ہمام نے فتح القدیر، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی نے البحرالرائق اور علامہ ابن عابدین شامی نے اپنے حاشیہ میں بیان فرمائی ہیں۔
قاضی یا جج یا کسی سرکاری منصب پر فائز افسران کا ملازمین کا لوگوں سے تحفے یا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں ہے۔ کسی منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بابت رسول اللہ ﷺ کی یہ وعیدیں آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے: ترجمہ:’’حضرت ابو حمید الساعدی ؓ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے ابنُ اللُّتْبِیّہ کو بنو سُلَیم کے صدقات وصول کرنے کا عامل بنایا، جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ نے اس سے حساب لیا تو اس نے کہا: یہ وہ مال ہے جو آپ کے لیے دیا گیا ہے اور یہ وہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو پھر ایسا کیوں نہ ہواکہ تم اپنے باپ اور اپنی ماں کے گھر میں بیٹھے رہتے، حتیٰ کہ تمہارے پاس یہ ہدیے آتے، پھر رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا: میں تم میں سے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر عامل بناتا ہوں، جس کا اللہ نے مجھے ولی بنایا ہے، پھر تم میں سے کوئی شخص میرے پاس آکر کہتا ہے :یہ حصہ آپ کے لئے ہے اور یہ حصہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، پس وہ شخص کیوں نہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا رہاحتیٰ کہ اس کے پاس ہدیہ آتا، اگر وہ سچا ہے، اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی اس مال میں سے جو چیز بھی ناحق لے گا، مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس چیز کو اس کے اوپر لاد دے گا، سنو! میں اس شخص کو قیامت کے دن ضرور پہچان لوں گا، جس کے اوپر اللہ بلبلاتا ہوا اونٹ لاددے گا اور جس کے اوپر ڈکارتی ہوئی گائے لاد دے گا یا ممیاتی ہوئی بکری لاد دے گا، آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے،پھر آپ ﷺنے فرمایا: سنو! کیا میں نے(اللہ کا) پیغام پہنچا دیا ہے،(صحیح البخاری ، رقم الحدیث:7197،صحیح مسلم ،رقم الحدیث:1832، سنن ابوداؤد، رقم الحدیث:2946،سنن دارمی، رقم الحدیث: 1669)‘‘۔
ترجمہ: ’’حضرت عدی بن عمیرہ کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے لوگو! تم میں سے جس شخص کو ہم نے کسی کام(یعنی صدقات کی وصولی) پر مقرر کیا، پھر اس میں سے کوئی چیز چھپالی خواہ وہ سوئی ہو یا اس سے بھی کمتر چیز، تو وہ خیانت ہے، اور وہ قیامت کے دن اس چیز کو لے کر آئے گا، تب ایک سیاہ فام انصاری اٹھا اور کہنے لگا، یارسول اللہﷺ! اپنی ذمہ داری مجھ سے لے لیجئے، آپﷺ نے پوچھا: کیوں ؟اس نے کہا: میں نے آپ کو اِس اِس طرح فرماتے سنا ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! میں اب بھی کہتاہوں، جسے ہم کوئی کام سونپیں تو وہ قلیل اور کثیر ہر چیز لے کر آئے، پھر اسے جو دے دیا جائے وہ لے لے اور جو نہ دیا جائے وہ نہ لے، (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1833،سنن ابودائود، رقم الحدیث:3581)‘‘۔