• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میرا ارادہ رمضان تک پے در پے روزے رکھنے کا ہے، لیکن کسی نے کہا کہ علماء سے سنا ہے کہ شعبان کے مہینے کا آخری روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے؟

جواب: شعبان کے مہینے میں مطلقاً روزہ رکھنا منع نہیں ہے، بلکہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا ثابت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضورﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے، اور میں نے حضور اقدسﷺ کو نہیں دیکھا کہ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی دوسرے مہینے میں (نفلی) روزے رکھے ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ چند ایام کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے۔البتہ شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے کی ممانعت سے متعلق دو قسم کی احادیث ہیں:

1.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو۔ (ابو داؤد ، ترمذی ابن ماجہ ، دارمی) اس حدیث میں روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے: رسول اللہ ﷺ نے امت کی آسانی و شفقت کی وجہ سے رمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے، تاکہ ان روزوں کی وجہ سے لوگوں کو ضعف و ناتوانی لاحق نہ ہوجائے، جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہو جائیں۔ جیسا کہ ان لوگوں کو جو قوت برداشت نہ رکھتے ہوں، عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے، تاکہ وہ روزے کی غیر متحمل مشقت سے بچ کر اس دن ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔

جس شخص کو مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے عبادت میں قوت نہیں ہوتی اور روزے کی دل جمعی پیدا نہیں ہوتی اور اسے متواتر روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہے، اس کے لیے رمضان سے پہلے روزے رکھنا مکروہ ہے،تاکہ رمضان میں اس کا نشاط اور چستی باقی رہے، اور وہ دل جمعی سے روزے رکھ سکے۔

پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جس نے شعبان کے نصفِ اول میں کوئی روزہ نہیں رکھا، یہاں تک کہ جب نصفِ آخر شروع ہوا تو روزہ رکھنا شروع کردیا۔

2.حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے، ہاں جو شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو ،وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

اس حدیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہے:نفل اور فرض دونوں روزوں کا اختلاط نہ ہو جائے اور اہلِ کتاب کے ساتھ مشابہت نہ ہو،کیوں کہ وہ فرض روزوں کے ساتھ دوسرے روزے بھی ملا لیتے تھے۔احتیاط اور شک کی بنا ءپر رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھا جائے اس سے منع فرمایا۔

فرض سے متصل نفل روزہ رکھنے سے فرض میں اضافے کا شائبہ پایا جاتاہے، چناں چہ فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن و نوافل اور فرض میں کچھ فصل کرنے یا جگہ بدل کر پڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فرض میں اضافے کا شائبہ نہ ہو۔

حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس شخص کے حق میں نہیں ہے جو ان ایّام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو، مثلاً کوئی شخص پیر یا جمعرات کے دن نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کی انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہو جائے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہے، ہاں جو شخص ان دنوں میں روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ نہ رکھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص ہر پیر وجمعرات کو یا ہر ماہ کے آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اسے روزہ رکھنے سے کم زوری اور نقاہت نہیں ہوتی تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے اور اگر کسی شخص میں مذکورہ ممانعت کی وجوہات میں کوئی وجہ پائی جائے تو اس کے حق میں کراہت ہوگی۔

اقراء سے مزید