• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ نظم جو فیض احمد فیض نے نورجہاں کے نام کی تھی

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے اپنی ایک نظم ،مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، ملکہ ترنم نور جہاں کے نام کردی تھی ۔جب نور جہاں نے فیض صاحب کی یہ نظم گائی تو ہر طرف بس اس نظم کے چرچے ہونے لگے۔

یہاں تک کہ بھارت میں مجروح سلطان پوری نے بھی اس نظم کی ایک سطر ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘ مستعار لی تھی، جسے بعد میں 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’چراغ‘ کے گانے میں شامل کیا گیا۔ پُر تاثیر الفاظ اور نور جہاں کے ترنم نے اس کو نظم کو مزید پُراثر بنادیا تھا۔ 

ایک تقریب میں فیض صاحب سے ایک شخص نے کہا کہ، آپ کی نظم کو نور جہاں نے خوب برتا ہے، تو فیض صاحب نے اپنے روایتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بھئی وہ نظم تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے، وہ اب ہماری نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ جب بھی فیض سے یہ نظم پڑھنے کیلئے کہا گیا انہوں نے یہی کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ،یہ نظم تو ہم نور جہاں کے نام کب کے کرچکے۔

فیض احمد فیض کی یہ مقبول ترین نظم نقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم ہے اور اس لحاظ سے خاص ہے کہ نقش فریادی ایک ایسی کتاب ہے جس نے فیض احمد فیض کی ادبی شناخت کو ایک غیر معمولی پختگی کی سمت مائل کیا۔

فیض کی شاعری میں جو تغزل اور احتجاج کا سنگم نظر آتا ہے اس کا آغاز اسی نظم سے ہوا۔ اس حصے کے آغاز میں فیض نے نظامی کا یہ حوالہ بھی دیا ہے ’دل بفروختم جان خریدم‘ (میں نے دل بیچ دیا ہے اور روح خرید لی ہے) ذیل میں فیض احمد فیض کی نظم ملاحظہ کریں۔

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے

جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ