• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بخاری (جو زیڈ اے بخاری کے نام سے معروف تھے) ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ بخاری صاحب اپنی انتظامی صلاحیتوں اور قدرے تنک مزاجی کے علاوہ اپنی حسِ مزاح اور زبان کے استعمال کے معاملے میں احتیاط کے لیے بھی مشہور تھے۔

ایک بار ریڈیو پاکستان سے غالب کی ایک غزل نشر ہورہی تھی جسے ایک خاتون گارہی تھیں۔ جب وہ اس شعر پر پہنچیں:

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

تو پہلے مصرعے کو انھوں نے یوں گایا :

’’قید و حیات‘‘ و ’’بندو غم‘‘ اصل میں دونوں ایک ہیں

بخاری صاحب نگرانی کے خیال سے ریڈیو کی نشریات مستقل سنتے رہتے تھے اور انھوں نے جب یہ مصرع سنا تو ان کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور انھوں نے ماتحت عملے سے کہا ’’اس سے جاکر کہو کہ اس مصرعے کو یوں گائے:

’’قیدو حیات‘‘ و’’ بند و غم‘‘ اصل میں ’’چاروں ‘‘ ایک ہیں

یہ کما ل تھا اس نامعقول واوِ عطف کا جو کسرہ ٔ اضافت کے بجاے ٹپک پڑا تھا۔

وہ خاتون تو بے چاری گلو کارہ تھی ۔ لیکن اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو اس واوِ عطف سے الجھتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔واو ِ عطف سے مراد ہے وہ واو (و) جو دو الفاظ کے درمیان آکر ’اور‘ کا مفہوم دیتا ہے، جیسے: دل و دماغ، حسن و عشق، دنیا و آخرت ، گل و خاروغیرہ۔یہ واو ِ عطف قوسِ قزح جیسے مرکبات میں بھی غیر ضروری طور پر داخل ہوجاتا ہے اور بعض لوگ اسے قوس و قزح لکھتے اور بولتے ہیں جو غلط ہے۔

درست ترکیب ہے: قوسِ قُزح ۔فرہنگ ِآصفیہ کے مطابق قُزح ایک فرشتے کانام ہے جو موکل ہے اَبر(یعنی بادل) کا ، گویا قوسِ قُزح کا لفظی مطلب ہوا قُزح کی کمان۔ آصفیہ نے لفظ قُزح کی تشریح میں برہانِ قاطع کے حوالے سے لکھا ہے کہ قُزح ایک شیطان کا بھی نام ہے اسی لیے قوسِ قزح کو قوسِ شیطان بھی کہتے ہیں [یعنی شیطان کی کمان]۔

یہ تو لفظی معنی ہوئے۔ قوسِ قُزح کے مرادی معنی ہیں وہ رنگین کمان جو بارش اور بادلوں کی وجہ سے آسمان پر بنتی ہے۔ اس میں مختلف رنگوں کی روشنیوں کی شعاعیں آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نیم دائرے کی شکل میں جاتی نظر آتی ہیں جس سے قوس یعنی کمان کا گمان ہوتا ہے۔

اسے دھنک بھی کہتے ہیں اوراسے ست رنگی کمان بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اول توقوسِ قزح میں واو ِ عطف نہیں ہے بلکہ کسرۂ اضافت ہے یعنی قوس کے ’س‘ کے نیچے زیر ہے جوحرف ِ اضافت کاکام کرتا ہے( یعنی ’کا‘ یا’ کی‘ یا’ کے‘ کا مفہوم ادا کرتا ہے)۔ اور دوسرے یہ کہ قُزح میں قاف پرضمہ (پیش) ہے، فتحہ ( زبر) نہیں ہے۔ فرہنگ ِ آصفیہ، نوراللغات، اسٹین گاس، پلیٹس ، فیلن، فرہنگ ِ تلفظ اور علمی اردو لغت سب نے اس کا تلفظ ’ق ‘پر پیش کے ساتھ یعنی قُزح دیا ہے۔

یہاں آصفیہ نے منتخب اللغات کا بھی حوالہ دیا ہے کہ اس کے مطابق قزح دراصل ایک مرکب ہے اور اس سے مراد ہے زرد ، سرخ و سبز راستہ۔ اسٹین گاس کے مطابق قوس کہتے ہیں کمان کو اور قُزح اس فرشتے کا نام ہے جس کے اختیار میں بادلوں کو دیا گیا ہے اور قوسِ قزح کے معنی ہیں دھنک۔ نوراللغات کے مطابق قزح ماخوذ ہے قزحہ سے ، جس کے معنی ہیں زرد، سرخ، سبز۔ لیکن اس کا کوئی حوالہ نور نے نہیں دیا۔

بہرحال، اشتقاق سے قطع نظر، قوس وقَزح درست نہیں ہے۔ صحیح ترکیب ہے: قوسِ قُزح۔