تاریخی کتب کی اگر ورق گردانی کریں تو پتا چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا سہرا صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے سر پر رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اکابر اولیائے کرام میں سید نعیم اشرف اشرفی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ اشر فیہ جائس انڈیا بھی ہیں۔
شیخ طریقت، رہبر ملت، غازی زماں، مرشد دوراں، عارف باللہ سید نعیم اشرف الاشرفی خانوادہ اشرفیہ کی انتہائی عظیم المرتبت اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے جن کے دم سے ناصرف ہند بلکہ بیرون ہند بھی امت مسلمہ کو کافی رہنمائی حاصل ہوئی ہے۔
آپ 19اپریل 1925ء کو اپنے ناناسجادہ نشین جائس، علامہ سید محمد نقی اشرف اشرفی کے یہاں پیدا ہوئے، جو مشہورو معروف متقی پر ہیز گار ذات میں سے ایک تھے، آپ کے والد شاہ عبد القیوم اشرف اشر فی اور والدہ صاحبہ تقویٰ، تز کیہ، شعار اور عابدہ وزاہدہ خاتون تھیں، رسم بسم اللہ نانا کے سرپرستی میں ہوئی، آپ نے چھ سال کی عمر میں قر آن پاک ناظرہ کیا،جبکہ نماز کے طریقے کے ساتھ عقائد دین کی متعدد بنیادی آیات و معمولات قر آنیہ نو عمری میں یاد کر لیا تھا۔
آپ نے جائس میں مولانا عبدالمصطفیٰ جائسی ،امین شریعت علامہ سید رفاقت علی مفتی اعظم کانپور اور امام النحو، سند المحدثین شاہ سید غلام جیلانی محدث میرٹھی سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں سید محمد الاشرفی جیلانی محدثِ کچھوچھوی سے سفر اور حضر میں تعلیم حاصل کی۔
اس زمانے کے اشراف و معزز گھرانہ کے فرد وفر ز ند ہونے کے نا تے، فارسی تعلیم کی ابتدائی کتابیں گلستان ودیگر نانا جان سے ہی پڑھی، اخلاق محسنی حکیم اشرف اشرفی سے جو کہ خانوادے کے معروف فاضلین میں سے تھے۔اخلاق محسنی کا کچھ حصہ حکیم سید مبارک حسین اشرفی جیلانیؒ سے پڑھا۔
مولانا غلام مصطفیٰ وارثی جائسی سے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، استاد العلماء، امام النحو مولانا عبد العزیز فتح پوری کے برادرِ کلاں مفتی عبد الرشید خان اشر فی ناگپوری سے کافیہ اور نصاب کی دوسری کتابیں پڑھی، مولانا مو صوف نے کافیہ زبانی یاد کرادی تھی۔
مفتی رفاقت حسین اشر فی سے شرح جامی شرح وقایہ ودیگر معقولات و منقولات کی کتابیں پڑھی، آپ کا لکھنو میں بھی حصول علم کے لیے دو سال قیام رہا، محدث اعظم ہند سے تفسیر اور دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی ، آپ فرماتے ہیں، یہ رفاقت اور تلمذ کے دو سال نہایت گراں بہا سرمایہ رہے، اس علم و عرفان و آگہی کے بحر بیکراں سے خوب سیرابی رہی۔1937میں اپنے نانا جان اور مر شد سید نقی اشرف اشرفی سجادہ نشین جائس سے بیعت ہوئے، مرشد نے دو قانون نافذ فرمائے۔ کھانا اور ناشتہ حضرت کے ساتھ کریں۔
درس کے بعد حضرت سے مل کر مکان میں داخل ہوں، جس فرامین نے آپ کی تعمیر، سیرت و تعلیم و تر بیت اخلاق میں یکجا کیے، مرشد کا طرز تر بیت بڑا موثر، دل نشین معیاری، وضع دار، شفتہ اور شستہ تھا،کھانے کی کوئی چیز اس وقت تک نوالۂ حلق نہ بناتے، جب تک آپ معلوم نہیں کر لیتے کہ گھر کے تمام افراد یہاں تک کہ ملازمین کو مل گیا ہے، پنچگانہ نمازیں مسجد میں باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا فرماتے، معمولات غیر معمولی اہتمام اور پابندی سے ادا فرماتے، اور ساتھ ہی اس کی تحکیم و تلقین بھی فر ما تے۔ آپ بچپن سے ہی اپنی جانب ایک نصیحت کی مسلسل تکرار فرماتے "اس طرح رہنے کے خوگر رہو کہ کہیں اور کسی وقت بھی تمہیں دیکھنے والے کو افسوس اور تمہیں شرمند گی نہ ہو۔
اوسطاً دس ماہ ہر سال سفر میں گزارتے اور باقی ایام خانقاہ میں قیام کرتے۔ رمضان شریف میں خانقاہ جائس میں قیام فرماتے۔ اسی طرح قرب و جوار کے مریدین کے ساتھ خانقاہ میں علمی وروحانی محافل انعقاد پذیر رہتیں جماعت کی پابندی اور حسن اخلاق کی ازحد تاکید فرماتے صوفیاء کا خاص عنوان، احسان پر زور دیتے اور خود ان سب کی عملی تصویر تھے قناعت آپ کی نمایاں صفت تھی۔
آپ کی حیات مبارکہ کا بیشتر حصہ دین و سنت کی ترویج و اشاعت اور امت مسلمہ کی خیرخواہی کی خاطر سفر میں گزرا۔ آپ نے دیار مقدس حرمین کا مبارک سفر اختیار فرمایا۔ جب اس پہلے سفر حج سے آپ کی واپسی ہوئی تو بستی کے بڑے بزرگوں نے پوچھا کہ کیا کیا مانگا تو آپ نے فرمایا علم اور عمل کی دعا مانگی۔
آپ کا انتقال6 شعبان المعظم 1433ھ، بمطابق 28,جون 2012ء کو ہوا، آپ کے جانشین اور صاحب زادے سید کلیم اشرف اشرفی نے آپ کا جنازہ پڑ ھایا، آپ کا مزار خانقاہ مخدوم اشرف جائس میں مر جع خلائق ہے۔ آپ کے دیگر صاحب زادہ گان میں پروفیسر ڈاکٹر مولانا علیم اشرف اشرفی، سید احمد فہیم اشرف اشرفی ایڈووکیٹ، سید ندیم اشرف اشرفی، سید شمیم اشرف کے علاوہ ایک صاحب زادی بھی ہیں، آپ کی شاہکار تصنیف، جو مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھو چھوی کے لطائف اشرفی کے بعد حضرت کی بائیو گرافی پر مشتمل کتاب "محبوبِ یزدانی" ہے جس کے بارے میں ممتاز محقق مفتی جلال الدین امجدی فرماتے ہیں، میرے نزدیک لطائف اشرفی کے بعد سب سے مستند کتاب ہے۔ ابو حماد محمد مختار اشرفی لکھتے ہیں کہ سید نعیم اشرف سجادہ نشین جائس شریف سے ملاقات 2006 کراچی پاکستان میں ہوئی، بہت زیادہ شفیق اور ملنسار پایا،،وہ سادہ طبیعت اور صو فی مزاج شخصیت تھے۔
حاجی محمد حنیف طیب فرماتے ہیں، سید نعیم اشرف اشرفی، خانوادۂ مخدوم اشرف سمنانی کے وہ فرد ہیں کہ آپ کے خاندان کے افراد صرف دین و مذہب اور تصوف میں ہی نہیں بلکہ، سیاسیات، سماجیات، معاشیات، انسانی فلاح و بہبود کے ہر میدان میں سر گرم نظر آتے ہیں۔ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر دلاورخان فرماتے ہیں ، " وہ یگانہ روزگار ہستی تھے، جن کےتذ کرے کے بغیر ہندو پاک کے تصوف کی تاریخ ادھوری نظر آتی ہے۔