مفتی خالد محمود
۷؍ فروری ۱۹۳۵ء ملّتِ اسلامیہ خصوصاً بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ایک عظیم دن ہے، جس دن حضور اکرم ﷺ کی ناموس و ختم نبوت کا بول بالا ہوا۔ آقائے نامدار، فخر موجودات، سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ ﷺ کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا، حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے والے مرزائیوں کو ذلّت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس دن بہاولپور کی عدالت کے محترم فاضل جج محمد اکبر مرحوم نے عظیم الشان فیصلہ صادر فرمایا کہ قرآن کریم ، احادیث ِنبویہ ، فقہائے کرام اور قانون کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والے مسلمان نہیں، بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں۔ اس مقدمہ کا پس منظر یہ ہے:
احمد پور شرقیہ کے ایک رہائشی مولانا الٰہی بخش نے اپنی بیٹی عائشہ کا نکاح اپنے ایک عزیز عبد الرزاق سے کردیا۔ بچپن میں عبد الرزاق مولوی الٰہی بخش کی تربیت میں تھا اور زیر کفالت بھی اور ان سے تعلیم بھی حاصل کررہا تھا۔ بعد میں عبد الرزاق مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا، جس کا مولوی الٰہی بخش اور ان کے گھرانے کو علم نہیں تھا۔
مولوی الٰہی بخش کی بیٹی بالغہ ہوچکی تھی۔ عبد الرزاق نے رخصتی پر بہت زیادہ اصرار کیا، مولوی الٰہی بخش سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہ اس قدر اصرار کیوں کررہا ہے ؟ تحقیق کرنے پر اس کے مرزائی ہونے کا پتا چلا تو مولوی الٰہی بخش نے اپنی بیٹی کی رخصتی سے منع کردیا۔
عبد الر زاق کے بار بار اصرار کی وجہ سے مولانا الٰہی بخش کی بیٹی نے اپنے والد کی مدعیت میں اپنے بالغ ہونے اور عبد الرزاق کے مرتد ہونے کی بناء پر احمد پور شرقیہ کی عدالت میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کردیا جو ابتدائی مراحل طے کرکے ۱۹۳۲ء میں ڈسٹرکٹ بہاولپور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کی منظوری خود والئی ریاست نے جوڈیشل کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے دی تھی۔
خواجہ خواجگان مولانا خواجہ خان محمدؒنے مقدمے کا پس منظر بتاتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’ بہاول پور ایک اسلامی ریاست تھی۔ اس کے والی نواب صادق محمد خان خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ خواجہ غلام فرید بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ حضرت خواجہ غلام فرید کے تمام خلفاء کو اس مقدمے میں گہری دلچسپی تھی۔
اس وقت جامعہ عباسیہ بہاول پور کے شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ کے ارادت مند تھے، لیکن اس مقدمے کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لیے سب کی نگاہ انتخاب شیخ الاسلام مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ پر پڑی۔ مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کرکے مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ بہاول پور تشریف لائے۔
ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمے کی طرف مبذول ہوگئی۔ بہاول پور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کے لیے ہزاروں جتن کیے، مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کو لوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفا شاہجہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ کے ایمان افراز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔
ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات ﷺ کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے۔ جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درو دیوار جھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ایوانوں پر زلزلہ طاری ہوجاتا۔ مولانا ابو الوفا شاہجہاں پوری نے اس مقدمے میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔
ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا: اگر چاہو تو عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے، مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھا گئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیریؒ نہیں، حضور سرور کائنات ﷺ کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔
علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلے میں مجاہدِ ملّت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے راقم الحروف (حضرت خواجہ خان محمد) سے بیان کیا کہ خضر حیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ مرحوم لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاول پور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارتے تھے۔ نواب مرحوم، سر عمر حیات ٹوانہ سے لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاول پور سے اس مقدمے کو ختم کرادیں، تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔
سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں، مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب ﷺ کا تو ان سے سودا نہیں کیا۔ آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلے میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کرکے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لیے اتنی بات کافی ہے۔
جنا ب محمد اکبر خان جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر مین پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں۔ مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اس فیصلے کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاول پور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔(مقدمۂ بہاول پور ، جلد اول، ص ۳۲،۳۳)
علمائے ربانی نے عدالت میں قرآن پاک، احادیث متواترہ اور اجماع امت کی روشنی میں براہین و دلائل سے مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے کفر و ارتداد کو روز روشن کی طرح آشکار کیا۔ جب کہ عبد الرزاق مدعا علیہ کی جانب سے مرزائی جماعت کے صف اول کے مبلغین جلال الدین شمس و غلام احمد نے پیروی کی۔ایک طرف علمائےربانی نے علم و عرفان کے دریائے بہادئیے تو دوسری جانب مرزائی مبلغین نے کذب و کتمان کے انبار لگادئیے۔
مقدمہ زیر بحث کا فیصلہ چونکہ بڑے دور رس نتائج کا حامل تھا۔ لہٰذا عدالت مجاز نے فریقین کو پوری آزادی کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جس کے نتیجے میں مدعا علیہ کی جانب سے مدعیہ کے ایک ایک گواہ کے بیان اور جرح پر بعض اوقات مسلسل ایک ایک ماہ صرف ہوا اور اس نتیجے میں فریقین کی جانب سے جو شہادت پیش ہوئی، وہ کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۹۳۴ء کے اواخر میں جب کہ شہادت فریقین ختم ہوکر فیصلہ زیر غور تھا، جلال الدین شمس مختار مدعا علیہ کی جانب سے ایک درخواست مؤرخہ ۲۴دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۰ بایں مضمون پر کی گئی کہ عبد الرزاق مدعا علیہ مؤرخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو فوت ہوگیا ہے۔ لہٰذا مقدمہ زیر بحث میں کسی تجویز کی ضرورت نہیں ہے۔ مسل مقدمہ داخل دفتر کردی جائے۔
ایک طرف مرزائی جماعت کو اپنے دنیاوی اسباب پر بھروسا تھا تو دوسری جانب اہل ایمان کو مسبّب الاسباب پر کامل یقین تھا اور وہ چاہتے تھے کہ حق و باطل کے اس عظیم مقدمے میں فیصلہ ہر صورت بحق یا بر خلاف مدعا علیہ ضرور صادر ہونا چاہیے۔
ابتدا ء ً مختاران مدعیہ نے عبد الرزاق کی اچانک موت کو تسلیم نہ کیا ،لیکن جب بعد تحقیق موت کی تصدیق ہوگئی تو مختاران مدعیہ نے مستند قانونی حوالہ جات و نظائر صفحہ ۲۸۳ پیش کرکے ثابت کیا کہ کسی ایک فریق کی موت واقع ہوجانے کی صورت میں بھی بروئے قانون مروجہ شرع شریف عدالت کے لیے لازم ہے کہ اس مرحلے پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔
فاضل جج نے فریقین کے پیش کردہ قانونی حوالہ جات و نظائر کا پوری تحقیق سے جائزہ لینے کے بعد مسماۃ غلام عائشہ مدعیہ کے مؤقف سے اتفاق فرماتے ہوئے ۷؍ فروری ۱۹۳۵ء کو فیصلہ صادر فرمادیا۔ (مقدمۂ بہاول پور ، جلد اول، ص ۲۲،۲۳)
تقریباً تین سال مقدمےکی کارروائی چلی، ۷؍ فروری ۱۹۳۵ء کو محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر ریاست بہاولپور نے پونے دو سو صفحات پر مشتمل ایمان افروز فیصلہ لکھا۔ عدالت مذکور نے مقدمے کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ درج ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور سنایا: ’’اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین بایں معنیٰ نہ ماننے سے کہ آپﷺ آخری نبی ہیں، ارتداد واقع ہوجاتا ہے اوریہ کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمۂ کفر کہہ کر بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
مدعا علیہ ، مرزا غلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے، اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے، یعنی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین یعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں، ان کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔
اس لیے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدۂ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جائے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لیے جائیں تو بھی مدعا علیہ مرزا صاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھا جائے گا۔ کیوں کہ اس صورت میں اس کے لیے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزا صاحب کی وحی ہوگی۔ نہ کہ احادیث و اقوال فقہاء جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزا صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان اُمور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے، کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے، لیکن یہ توجیہیں اس لیے کار آمد نہیں کہ یہ اُمور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لیے وہ ان کے نقطہ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہوسکتے۔
اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جائے کہ وہ تمام غیر احمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ کذاب وغیرہ مدعیان نبوت کے سلسلے میں جو کچھ کہا ہے ،اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ: گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے، وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں ،اس لیے مدعا علیہ بھی مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں بحق مدعی ثابت قرار دی جاکر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعاعلیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی مدعا علیہ کے ادعاء کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔
اور یہ کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی طرف منسوب کیے ہیں، وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں، لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں پر عمل پیرا سمجھا جائے گا جو معنی کہ مرزا صاحب نے بیان کیے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور اُمت آج تک لیتی آئی ہے، اس لیے وہ بھی مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح ارتداد سے فسخ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہیں۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ سے لینے کی حق دار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اللہ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے، اس لیے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہیے، اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں تو اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح جائز ہے، نہ کہ مردوں سے بھی۔
مدعیہ کے دعوے کی رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے اس لیے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اسی کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہیں۔(۷؍ فروری ۱۹۳۵ء بمطابق ۳؍ ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ، بمقام بہاولپور۔دستخط …محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر …ریاست بہاولپور (بحروف انگیزی)(ملت اسلامیہ کا مؤقف ص ۹۹ تا ۱۰۳)
یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب ۷؍ فروری ۱۹۳۵ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خط و خال آشکار ہوگئے۔ بلا شبہ ،پوری امت جناب محمد اکبر خان جج مرحوم کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسا فیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل کی طرح پیوست ہوتا گیا۔ یہ فیصلہ قادیانیت پر برق آسمانی و بلائے ناگہانی ثابت ہوا۔
مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمتی جمع ہوکر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی اور رب العزت کی قدرت کے قربان جائیں، کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا۔ ایک دفعہ پھر ’’ جاء الحق و زھق الباطل‘‘ کی عملی تفسیر اس فیصلے کی شکل میں امت کے سامنے آگئی۔ (مقدمۂ بہاول پور ، جلد اول، ص ۳۳، ۳۴)