• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک دینی مجلس میں دورانِ محفل یہ شعر پڑھا گیا:

کوئی مررہا ہے بہشت پر کوئی چاہتا ہے نجات کو

میں تجھی کو چاہوں خدا کرے، میری اس دعا کا سلام لو

محفل میں موجود عالم دین نے فرمایا: یہ شعر درست نہیں اور سب کو تجدید ایمان کروایا۔ اس بارے میں دینی راہنمائی فرمائیں؟ (محمد ابراہیم ،کراچی)

جواب: قرآن مجید میں بےشمار مقامات پر جنت کے حسن ورعنائی کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے اور جابجا اہلِ ایمان کی رغبت کے لیے اُس کے دلکش نظاروں اور بے پایاں نعمتوں کا بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس تفصیل سے جنت کی خوبیوں کا ذکر لوگوں کی توجہ اور اُن کے دل میں طلب کی خواہش پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

سورۃ الرحمٰن میں ’’ فَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ‘‘ کو31 مرتبہ تکرار کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور اِس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں خاص طور پر جنت کے انعامات کا تفصیل کے ساتھ بیان ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’ دو جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اورجو کچھ ان میں ہے (وہ چاندی کا ہے) اور دو جنتیں سونے کی ہیں، اُن کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے (وہ سونے کا ہے) اور لوگوں کے درمیان اوراس کے درمیان کہ وہ اپنے رب کو دیکھیں صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہے جو اللہ کے چہرے پر ہے ،جنت عدن میں، (صحیح بخاری: 4878)‘‘۔

اِسی طرح نجات کے بارے میں توبہ واستغفار کی اہمیت قرآن مجید واحادیث مبارکہ میں کثرت کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’ اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے، جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور دائمی جنتوں میں پاکیزہ رہائش گاہوں کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ کی رضا (ان سب سے) بڑی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے، (سورۂ توبہ:72)‘‘۔

قرآن مجید میں جنت کی صفات اور اس میں حاصل ہونے والی نعمتوں کو بار بار اور تکرار کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، اس کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں جنت کی طلب اور حصولِ جنت کا شوق پیدا ہو، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’ جنت ناگواریوں اور مشقتوں سے گھری ہوئی ہے اور جہنم شہوتوں سے گھری ہوئی ہے، (سنن ابن ماجہ:1)‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ حصولِ جنت کوئی آسان چیز نہیں ہے، اس کے لیے طرح طرح کی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جنت مومن کا مطلوب ومقصود ہے: ترجمہ: ’’اللہ نے ایمان والوں سے اُن کی جانوں اور اُن کے مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا، (سورۂ توبہ:111)‘‘۔

علامہ غلام رسول سعیدی ؒ لکھتے ہیں :’’سب سے عظیم نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی رضا ہے لیکن یہ نعمت بھی جنت میں حاصل ہوگی۔ بعض جاہل شعراء اورجعلی اور بناوٹی صوفیاء جنت کی بہت تحقیر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیدار اور اس کی رضاکی اہمیت بیان کرکے جنت کی طلب کو گھٹیا اور بہت خسیس کہتے ہیں، حالانکہ قرآن اور حدیث میں جنت کی بہت فضیلت ذکر فرمائی گئی اور اس کی طلب کی ترغیب دی گئی ہے اور جنت کو طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے خود بھی جنت کا سوال کیا ہے اور ہمیں بھی جنت الفردوس کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار مؤنث ہے جنت کا طلب گار مخنث (ہیجڑا) ہے اور مولیٰ کا طلب گار مذکر ہے، اسی طرح یہ لوگ مدینہ منورہ کی طلب کے مقابلے میں بھی جنت کی طلب کو گھٹیا اور خسیس کہتے ہیں ان کے اس قسم کے اشعار ہوتے ہیں:

تیری میری چاہ میں زاہد بس اتنا فرق ہے

تجھ کوجنت چاہیے، مجھ کو مدینہ چاہیے

حالانکہ رسول اللہ ﷺ جس جگہ آرام فرما ہیں، وہ بھی جنت کا ایک ٹکڑا ہے اور آخرت میں بھی آپ جنت میں ہوں گے تو حضور ﷺ کی قیام گاہ اول آخر جنت ہی ہے تو پھر جنت کو مدینہ کے مقابلے میں کیوں گھٹیا کہا جاتا ہے اور مدینہ منورہ میں زمین کے جس ٹکڑے پر آپﷺ تشریف فرما ہیں، یہ آپ کی عارضی قیام گاہ ہے اور آپ کی دائمی قیام گاہ جنت ہے تو پھر آپ کی دائمی قیام گاہ کے درجے میں کمی کرنا کیا یہی آپ سے عشق ومحبت کا تقاضا ہے۔ اللہ کی رضا کے مقابلے میں بھی جنت کو کم درجے کا اور گھٹیا کہا جاتا ہے کہ ہمیں جنت نہیں اللہ کی رضا چاہیے۔

ہم پوچھتے ہیں کہ جس جنت کی اللہ تعالیٰ نے بہت تعریف کی ہے اور اس کی طرف دوڑنے کا حکم دیاہے تو اسے معمولی اور گھٹیا کہنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا یا ناراض! سب سے بلند درجہ اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی رضا کا ہے اور اس کے بعد جنت کا درجہ ہے، لیکن یہ بلند درجات جنت میں ہی حاصل ہوں گے، اس لیے جنت کی طرف رغبت کرنا چاہیے اور جنت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے۔ 

حدیث میں ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں: کمان کے ایک سر کے برابر جنت میں جگہ ان تمام جگہوں سے بہترہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یا غروب ہوتا ہے، (صحیح بخاری: 2793، مسلم: 1882، سنن نسائی:3118)‘‘۔

حضرت سہل ؓبیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جنت میں ایک چابک کے برابر جگہ بھی دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے ،(صحیح بخاری: 3250,2792، مسلم:1881)‘‘۔

جنت کو کم تر قرار دینے والے جاہل شعراء اور جعلی صوفی حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حصولِ جنت کی دعاکی ہے: ترجمہ: ’’اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنادے، (سورۃ الشعراء:85)‘‘۔

ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی جنت کے حصول کی دعا کی ہے: ترجمہ:’’اور میں تجھ سے جنت کے بلند درجات کا سوال کرتا ہوں، آمین،(المعجم الکبیر ،جلد23،ص:316)‘‘۔

جب رسول اللہ ﷺ نے حصولِ جنت کی دعا کی ہے تو پھر جنت کی دعا کرنے کو کم ترقرار دینے کی کیا گنجائش ہے اور ہمارے لیے یہ حدیث کافی ہے: حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے تین مرتبہ اللہ سے جنت کا سوال کیا تو جنت کہتی ہے: اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے اور جس نے تین مرتبہ دوزخ سے پناہ طلب کی تو دوزخ کہتی ہے: اے اللہ ! اسے دوزخ سے پناہ میں رکھ ،(سنن ترمذی: 2572‘‘۔ تبیان القرآن، جلد7،ص:221)۔

مسجدِ نبوی مدینۂ منورہ میں ہے۔ مدینۂ منورہ سے اہلِ ایمان کو بے پناہ عقیدت ومحبت ہے اور مسجدِ نبوی میں عبادت کا اجر بعض روایات کی رُو سے ہزار گنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’ مسجدِحرام کے سوا دیگر مساجد کے مقابلے میں میری مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب ہزارگنا ہے،(صحیح بخاری:1190)‘‘۔

ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھر میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب پچیس گنا ہے اور جامع مسجد میں پانچ سو گنا اور مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِ نبوی میں پچاس ہزار گنا اور مسجدِ حرام میں ایک لاکھ گنا ہے، (سنن ابن ماجہ :1478)‘‘۔ ( …جاری ہے …)