برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ کیمی بیڈنوچ آج ایک نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان کر رہی ہیں، جو ان کے بطور پارٹی رہنما پہلا بڑا اقدام ہوگا۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ ایک سروے میں ریفارم یو کے نے پہلی بار سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہے، جبکہ کنزرویٹو پارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
کیمی بیڈنوچ کی جانب سے اعلان کردہ امیگریشن پالیسی کا مقصد برطانیہ میں غیر قانونی اور غیر منظم امیگریشن کے مسائل پر قابو پانا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس پالیسی میں سرحدی کنٹرول کو مزید سخت بنانے، ویزا کے اصولوں میں ترامیم اور غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں گے۔
بیڈنوچ طویل عرصے سے سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کی حامی رہی ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ غیر قانونی امیگریشن برطانیہ کی معیشت، سوشل سروسز اور عوامی وسائل پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ برطانوی عوام کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں جو امیگریشن کے مسائل کو جڑ سے ختم کریں۔
کیمی بیڈنوچ کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب ریفارم یو کے نے عوامی مقبولیت میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور تازہ ترین سروے میں کنزرویٹو پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سروے کے مطابق ریفارم یو کے پہلی بار سب سے زیادہ مقبول جماعت بن کر ابھری ہے جبکہ لیبر پارٹی دوسرے اور کنزرویٹو پارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
یہ صورتحال بیڈنوچ اور کنزرویٹو قیادت کےلیے تشویشناک ہے کیونکہ روایتی طور پر کنزرویٹو پارٹی امیگریشن جیسے معاملات پر سخت مؤقف رکھنے کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل کرتی رہی ہے۔ لیکن ریفارم یو کے کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے کنزرویٹو ووٹ بینک کو متاثر کیا ہے، جس کے بعد بیڈنوچ پر دباؤ ہے کہ وہ سخت گیر امیگریشن اصلاحات متعارف کرائیں تاکہ پارٹی کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے۔
کیمی بیڈنوچ کےلیے یہ لمحہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ کنزرویٹو پارٹی حالیہ انتخابات اور عوامی رائے عامہ کے سروے میں کمزور ہوتی جا رہی ہے، جبکہ ریفارم یو کے عوام میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ اگر بیڈنوچ اپنی امیگریشن پالیسی کے ذریعے عوامی اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہتی ہیں، تو کنزرویٹو پارٹی کے لیے آئندہ انتخابات میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ان کی پالیسی عوام اور پارٹی کے اندرونی حلقوں میں حمایت حاصل کر پائے گی یا نہیں۔ تاہم یہ اعلان برطانوی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور آئندہ کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔