• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم کا روشن مینار سید المحدثین امام بخاری ؒ

عمران احمد سلفی

قبل از رمضان شعبان المعظم کے مہینے میں ملک بھر کےمدارس دینیہ میں تکمیل بخاری شریف کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں درس نظامی، علوم نبویؐ کے فارغ التحصیل طلباء علمائے کرام کی صف میں شامل ہوتے ہیں اور ملک کے جید علما و مشائخ الحدیث صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ درس ارشاد فرماتے ہیں، فارغ ہونے والے طلباء کی دستار بندی کی جاتی ہے، جس سے ایک جانب دینی علوم میں درس حدیث کی اہمیت ،کتب حدیث میں امام بخاریؒ کی صحیح بخاری اور خود امام بخاریؒ کی عظمت و جلالت کو بیان کیا جاتا ہے۔

امام المسلمین ، امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاری ؒ اپنے زمانے میں حفظ و اتقان، معانی کتاب و سنت کے فہم، حافظے کی عمدگی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ انؒ کا اصل نام محمد، ولدیت اسماعیل اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے والدِ ماجد جلیل القدر عالم اور محدث تھے۔ انہیں امام مالکؒ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ ؒ محمد اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزیہ ہیں۔ علامہ ابن حجر ؒنے بروزیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آتش پرست تھے۔ اس سے آپ کا فارسی النسل ہونا ظاہر ہے۔ 

آپ کے پَردادا مغیرہ، حاکم بخارا، یمان الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد شہر ِ بخارا میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی وجہ سے امام بخاری کو الجعفی البخاری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والدِ ماجد اسماعیل اکابرِ محدثین میں سے ہیں۔

امّت میں یہ شرف کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ، بیٹے دونوں محدث ہوں۔ امام بخاریؒ بخارا میں پیدا ہوئے۔ کم سِنی ہی میں والد ماجد داغِ مفارقت دے گئے، تو آپ کی تربیت کی ذمّے داری والدہ محترمہ کے سر پر آگئی، جو نہایت ہی عبادت گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔

والدین کی علمی شان دین داری کے پیشِ نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاریؒ کی تعلیم و تربیت کس انداز سے ہوئی ہوگی۔ امام بخاری ؒکو بچپن ہی سے قرآن و حدیث سے بے انتہا شغف تھا۔احادیث کے حوالے سے ان کی عرق ریزی اور یادداشت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا، گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تخلیق صرف حدیث ِ رسول ﷺ ہی کےلیے کی ہے۔ گیارہ برس کی عمر میں آپ کو متنِ حدیث اور اس کی سند پر پورا عبور حاصل ہوچکا تھا۔ جب کہ سولہ سال کی عمر میں عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کے مجموعۂ احادیث کی تمام حدیثیں زبانی یاد ہوگئیں۔

امام بخاری نےوالدہ محترمہ کی اجازت سے تحصیل علم کےلیے مکّے میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں دو برس تک ظاہری اور باطنی کمالاتِ علمی حاصل کیے۔ مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے مشاہیر محدثین کرام، مطرف بن عبداللہ، ابراہیم بن منذر، ابوثابت محمد بن عبیداللہ اور ابراہیم بن حمزہ جیسے بزرگوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ بلادِ حجاز میں چھے برس قیام کے بعد آپ نے بصرہ کا رخ فرمایا اور پھر کوفہ تشریف لے گئے۔ بغداد چوں کہ عباسی حکومت کا پایۂ تخت رہا ہے۔ اس لیے اسے علوم و فنون کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ 

جیّداکابر ِ عصر بغداد میں جمع تھے۔ اس لیے امام بخاری ؒنے متعدد بار وہاں کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشائخِ حدیث میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔ امام بخاریؒ نے روایتِ حدیث کے سلسلے میں دور درازکے شہروں کا بھی سفر کیا۔ طلبِ حدیث کے لیے مصر، شام، بصرہ حجاز مقدّس، کوفہ اور بغداد بھی گئے۔ آپ کو جہاں سے بھی روایت ملتی اخذ کرلیتے۔

امام بخاریؒ نے صرف اپنی ذاتی تحقیق پر ہی اکتفاء نہیں کیا ،بلکہ اس زمانے کے بلند پایہ محدثین عظام اور ائمہ کرام سے اس کی صحت کاملہ کا مزیدیقین محکم اورتصدیق کرواتے۔ لہٰذا ’’ھدی الساری‘‘ میں امام ابو جعفر عقیلی فرماتے ہیں،’’امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ کر امام علی بن المدینی، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور دیگر محدثین کرام کو پیش کیا، تو سب نے اسے پسند کیا اور علاوہ چار احادیث کے، اس کے درست اور مستند ہونے کی شہادت دی۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چار احادیث کے بارے میں امام بخاریؒ کی بات ہی درست ہے۔ اس میں سب احادیث صحیح ہیں۔ 

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ، منہاج السنہ میں فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ اور امام مسلم سے پہلے اور بعد کے جیّد نقادِ ائمہ نے بخاری و مسلم کی احادیث کو پرکھا اور جانچا ہے اور بے شمار لوگوں نےانہیں روایت کیا ہے۔ لہٰذا کسی حدیث کے روایت اور صحیح کہنے میں امام بخاری اور امام مسلم اکیلے نہ رہے، بلکہ پوری امّت کے علمائے محدثین، متقدمین اور متاخرین نے ان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’امام بخاری اور امام مسلم کی تمام احادیث کی صحت، تصدیق اورتلقی بالقبول پر تمام علمائے محدثین کا اتفاق ہے اور اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں۔ 

امام بدر الدین عینی حنفی، عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کے بعد بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح کتاب کوئی نہیں ہے۔ مقدمہ نووی میں امام نووی فرماتے ہیں، ’’تمام علمائے امّت اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں بخاری و مسلم ہیں اور امّت نے انہیں شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ بلاشبہ، جب کبھی اختلاف ہوگا، تو بخاری و مسلم کی روایت محض اس لیے قوی تر اور مقدم سمجھی جائیں گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہیں۔

امام بخاری ؒنے بیس سال کی عمر میں بخاری شریف کی ترتیب و تدوین کا آغازکیا۔ آپ نے اس ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور حفظ ہی کا سرمایہ خرچ نہیں کیا، بلکہ اس شان سے آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ فرماتے، تو پہلے غسل فرماتے اور دو رکعت نفل پڑھتے، جب آپ کو اس کی صحت کا یقین ہوجاتا، تو وہ حدیث بخاری شریف میں تحریر فرماتے۔ 

غالباً اس بزم آب و گل میں آج تک اس اندازسے کسی مصنّف نے تصنیف و تالیف نہ کی ہوگی۔ آپ نے چھے لاکھ احادیث میں سے صحیح اور مستند احادیث منتخب فرمائیں۔ سخت محنت اور عرق ریزی کے سولہ برسوں میں یہ کتاب تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی کتاب عالمِ وجود میں آگئی، جس کا لقب بلا کم و کاست قرآن مجید کے بعددنیا میں سب کتابوں میں مستند ترین قرار پائی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ”جامع الصحیح“ رکھا، لیکن جلد ہی یہ کتاب صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہوگئی۔

امام بخاری کے شاگرد خاص محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب فرماتے تھے کہ ’’میں اس وقت تک درسِ حدیث کے لیے نہیں بیٹھا، جب تک کہ میں صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے ممتاز اور اہل الرائے کی کتابوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ متن حدیث پر پوری طرح عبور حاصل نہ کرلیتا۔ 

آپ کی مجالس، عرب، ایران اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں امام بخاریؒ کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ نہ پہنچے ہوں۔ آپ کے درس کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ حضورﷺ کے ارشادات سننے کے لیے میلوں پیدل چل کر امام بخاریؒ کی مجلس میں شریک ہوتے۔

امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں گزرا اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا بہت کم موقع میسّر آیا۔ اس کے باوجود صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی بائیس تصانیف ہیں، جن میں سے کئی مستند علمی ذخیرے کا درجہ رکھتی ہیں۔ امام بخاریؒ کے والد انتہائی امیر شخص تھے اور آپ کو والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، لیکن اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا۔ 

جو آمدنی ہوتی، اس سے غریب و نادار طلبا کی امداد کرتے۔ غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنا سرمایہ مضاربت پر دے رکھا تھا۔ کاروبار سے علیٰحدہ رہتے، تاکہ سکونِ قلب سے خدمت حدیث نبوی کرسکیں۔ باوجود اس کے ایّام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا مشقّتیں برداشت کیں اور کسی مرحلے پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

ایک دفعہ کسی نے آپ کے آٹھ ہزار درہم دبالیے، جب ملاقات ہوئی، تو شاگردوں نے کہا کہ ’’وہ شخص آپہنچاہے۔ آپ نے فرمایا، ’’قرض دار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس تجارت کا سامان پہنچا، تاجروں کو پتا چلا تو وہ سامان خریدنے کےلیے آپ کے پاس پہنچ گئے اور پانچ ہزار درہم کی پیش کش کی۔ 

آپ نے فرمایا کہ رات کو آنا۔ شام کو دوسرے تاجر آگئے، انہوں نے وہ سامان خریدنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیش کش کردی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں پہلے گروہ کے ساتھ فروخت کی نیّت کرچکا ہوں، اب پانچ ہزار کی خاطر اپنی نیّت بدلنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے وہ مال پہلے تاجروں کے گروہ کو فروخت کردیا۔

دنیا کے مختلف شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں احادیثِ رسولﷺ اور علوم نبویؐ کی ترویج و اشاعت میں زندگی گزارنے والے حدیث کا امام اور آفتابِ حدیث خرتنگ کی زمین میں اترگیا۔ عید کی شب آپ انتقال فرما گئے۔ عید الفطر کے روز ایک خلقِ کثیر نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ شہر کا ہر بچہ اور بڑا جنازے کے ساتھ تھا۔ بعد نماز ظہر علم و عمل اورزہد و تقویٰ کے مجسم امام بخاریؒ کو سپرد خاک کردیا گیا۔

اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہو ،مدارس دینیہ میں ملک کے جید علمائے کرام جن میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی تقی عثمانی ، محدث العصر شیخ الاسلام علامہ عبداللہ ناصر رحمانی ، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حافظ مسعود عالم ، مولانا عبد العزیز نورستانی سمیت کثیر علما ئےکرام کے درس حدیث کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ امت کو قرآن وحدیث پر جمع فرمائے۔ ( آمین)