• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کامران علی پر اپنی دو حقیقی بہنوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، تو کیا ماں اپنی دونوں بیٹیوں کا خون معاف کرکے اپنے بیٹے کو سزا سے بچاسکتی ہے، واضح رہے کہ ماں ہی گھر کی سربراہ ہے، کامران سمیت تین بیٹے اور چار شادی شدہ بیٹیاں ہیں (امداد حسین ، کراچی)

جواب: قتل ِعمد یا قتلِ خطا میں صلح کرنے یا معاف کرنے کا حق واختیار مقتول کے اولیاء کو ہوتا ہے،علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور مقتول کے ورثاء میں سے کسی مرد یا عورت یا ماں یا نانی یا دادی یا ان کے سوا عورتوں میں سے کسی نے قاتل کو معاف کردیا یا مقتول عورت ہے اور اس کے شوہر نے قصاص معاف کردیا ،تو پھر قاتل سے قصاص نہیں لیا جائے گا، ’’سراج الوہاج‘‘ میں اسی طرح ہے ،( فتاویٰ عالمگیری ،جلد6،ص:20)‘‘۔ کیونکہ جان ایک بسیط حقیقت ہے، اس کی تجزّی نہیں ہوسکتی ،اس لیے جب اولیائے مقتول میں سے کوئی ایک بھی معاف کردے گا ،تو قصاص ساقط ہوجائے گا اور دِیت لازم ہوجائے گی۔

تجزّی کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کو اجزاء میں تقسیم کردینا‘‘، مقتول کے اولیاء کو شرعاً جو قصاص کا حق حاصل ہے ، وہ حق کسی ایک فرد کے پاس نہیں ہے، بلکہ وراثت میں ان کے حصول کا جو تناسب ہے، وہی اس حق میں بھی ہے، جبکہ ’’جان‘‘ کے اجزاء نہیں ہوتے کہ چوتھائی یاتہائی یا نصف معاف ہوگی اور باقی کا قصاص لے لیا۔ اس لیے ایک وارث بھی معاف کرے گا تو قصاص ساقط ہوجائے گا اور سب کو دِیت قبول کرنے پر راضی ہونا لازمی ہوگا، اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ (جاری ہے)