• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان طالبان ٹی ٹی پی کے مددگار ہیں: اقوام متحدہ


اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان بدستور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملے بڑھ رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024ء کے دوران اس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی افغان سر زمین سے کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالرز فراہم کر رہے ہیں، تنظیم نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، القاعدہ برِصغیر (AQIS) اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں مل کر ’تحریکِ جہاد پاکستان‘ (ٹی جے پی) کے بینر تلے حملے کر رہی ہیں جس سے یہ تنظیم علاقائی دہشت گرد گروپوں کا مرکز بن سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے داعش خراسان (IS-K) کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور 3 اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے جن میں عادل پنجشیری (افغان)، ابو منذر (تاجک) اور کاکا یونس (ازبک) شامل ہیں تاہم کرمان حملے کا ماسٹر مائنڈ طارق تاجکی اب بھی افغانستان میں روپوش ہے۔

رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کے مجید بریگیڈ (MB) نے جنوبی پاکستان میں کئی بڑے حملے کیے ہیں جن میں آواران، پنجگور اور دالبندین میں حملے شامل تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کا تعلق ناصرف ٹی ٹی پی بلکہ داعش خراسان (ISIL-K) اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ETIM/TIP) سے بھی ہے۔

یہ گروہ افغانستان میں مشترکہ آپریشنل اڈے چلا رہے ہیں، جماعتِ انصار اللّٰہ نے خوست میں القاعدہ کے انجینئروں اور ہتھیاروں کے ماہرین کے ساتھ تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں، تخار میں ایک خصوصی فوجی مرکز بھی بنایا گیا ہے جہاں وسطی ایشیائی اور عرب جنگجوؤں کو تربیت دی جاتی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طالبان نے بدخشاں کے علاقے فیض آباد میں ایک خودکش بم بار یونٹ تعینات کیا ہے جو طالبان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مزید گرفتاریوں سے بچنے کے لیے داعش خراساں نے ہدایات اور میٹنگز کے لیے الیکٹرانک مواصلات کے بجائے روایتی کوریئر نیٹ ورکس کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

قومی خبریں سے مزید