ڈاکٹر نعمان نعیم
’’اولاد‘‘اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور والدین کے لیے مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن یہ (اولاد) رونق وبہار اور زینت و کمال کاسبب اسی وقت بنتی ہے، جب بچپن ہی سے ان کی تعلیم و تربیت اور بہتر نشوونما کا خیال رکھاجائے، ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھا جائے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھانے کا اہتمام کیاجائے۔
اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک نعمت ہے، وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں، اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اور انہیں آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکا اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ہے، لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
شریعتِ مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کے سلسلے میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں، ان میں سب سے اہم اور مقدّم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں، لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذے کا سبب بن سکتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں۔ (سورۃ التحریم:۶)
نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے، اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کہ ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں، ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔
اسلام نے تعلیم دی ہے کہ ایک مسلمان کی جب اولاد ہو تو اس کا اچھے سے اچھا نام رکھے۔ تعلیم وتادیب کے قابل ہوتو اسے بہتر سے بہتر تعلیم اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرے۔ شادی کے قابل ہو تو ایسے خاندان میں اس کا رشتہ تجویز کرے جو دینی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے فائق ہو۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’تم میں سے جس کی ان لڑکیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے تو وہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے پردہ (بچاؤ کا ذریعہ) ہوں گی ‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ،ص:۴۲۱)
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے دو بچیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے اور پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں ملالیں ‘‘۔(مشکوٰۃ، ص:۴۲۱)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تین بیٹیوں یا ان کی طرح (یعنی تین) بہنوں کی پرورش کی ، پھر انہیں ادب سکھایا اور ان پر شفقت کی، یہاں تک کہ اللہ اُنہیں (شادی، مال یا موت کے ذریعے) غنی کردے تو ایسے آدمی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کو واجب کردیا۔ ایک صحابیؓ نےعرض کیا: یارسول اللہﷺ! اگر دوہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دو بھی ہوں(یعنی تب بھی یہی بشارت ہے)‘‘۔(مشکوٰۃ، ص:۴۲۳)
حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی اپنے بچے کو ادب سکھائے، یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک صاع صدقہ کرے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ص:۴۲۳) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس ایسے لوگ رشتہ بھیجیں جن کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو ان کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت زیادہ فساد برپا ہوگا‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۴۲۴)
اولاد کے جوان ہونے کے بعد ان کی شادی میں تاخیر نہ کریں، کیونکہ شادی میں تاخیر بھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں غلط راستہ اختیار کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہے اور پھر اس کا گناہ اور وبال اُن کے والدین پر ہوتا ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کا اچھا نام رکھے، اس کی بہترین تربیت کرے اور وہ جب بالغ ہوجائے تواس کی شادی کردے، پس اگر بالغ ہونے کے بعد اس نے شادی نہیں کی اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی)
نیک اولاد دین ودنیا کا بہترین سرمایہ اور آخرت کا بیش قیمت ذخیرہ ہے۔ اگر ان کی تعلیم وتربیت سے غفلت برتی گئی یا ان کی پرورش غلط بنیادوں پر کی گئی تو اولاد نہ صرف یہ کہ والدین کے لئے تباہی وبربادی کا سبب بنے گی، بلکہ ملک وقوم اور دین وملت کو بھی رسوا کرے گی۔
اس لئے شریعت مقدسہ نے اولاد کی اخلاقی، مذہبی، دینی، ہمہ قسم کی تعلیم وتربیت کا صحیح اور اعلیٰ انتظام کرنا ماں باپ کی ذمہ داری قرار دیا ہے اور ہر صاحب خانہ پر اپنی اولاد کی دینی تربیت اور اچھے اخلاق سکھانے کا فرض عائد کیا ہے، اس لئے کہ پچپن میں جس قسم کی تربیت ہوجاتی ہے، بڑا ہوکر آدمی اسی پر قائم رہتا ہے اور جو شخص جس روش اور عادت پر جوان ہوتا ہے، اسی روش اور عادت پر بڑھاپے تک قائم رہتا ہے۔
اگر اولاد کو پچپن میں ہی غلط ماحول ، غلط سوسائٹی اور غلط راستے پر ڈال دیا گیا تو جوان ہوکر بھی وہ اُسی غلط راستے اور غلط روش کا انتخاب کرے گی۔ اب اسے راہ راست پر لانا نہایت کوشش کے باوجود دشوار ہوگا اور سوائے تباہی وبربادی کے ان سے کسی خیر کی توقع اور امید رکھنا عبث ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولاد کی اچھی تربیت کو بہترین عطیۂ الٰہی فرمایا ہے۔
ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نمازوں کا اہتمام کرکے اپنی اولاد کی بھی نمازوں کی نگرانی کرے۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی دن رات فکر کی جاتی ہے ،اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح جہنم کی آگ سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونے والے بن جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی سرزنش کرو۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کردو۔ (سنن ابوداؤد) عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہوجاتے ہیں، اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے اور انہیں نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہئے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہوجاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لئے نماز کے معاملے میں ان پر سختی کرنی چاہئے، نیز اس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ لٹانا چاہئے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔ نماز کے ساتھ بچوں کو وقتاً فوقتاً روزے بھی رکھواتے رہیں تاکہ بلوغ سے قبل وہ روزہ رکھنے کے عادی بن جائیں۔
اپنی اولاد کو اپنے لیےصدقہ جاریہ بنانے کا رمضان سے بہترین موقع اور کیا ہو گا؟ اس ماہ مبارک میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں، اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔بچوں کو رمضان کی آمد کا احساس دلائیے، انہیں ان کی عمر کے مطابق اس کے فضائل اور نعمتوں سے آگاہ کیجیے۔
والد بچوں کو رمضان سے پہلے ہی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ والدہ بچیوں کے لیے علیحدہ جائے نماز، دوپٹے یا اسکارف کا انتظام کریں، تاکہ ان میں نماز کا شوق پیدا ہو اور انہیں اپنے ساتھ نماز پڑھانے کا اہتمام کریں۔ یاد رکھیے یہی اولاد آپ کے لیے قبر میں روشنی اور درجات میں بلندی کا سبب بنے گی۔
بچوں کو روزہ رکھنے اور افطار کی دعا یاد کروائیں۔ آسان درود شریف اور چھوٹی چھوٹی قرآنی سورتیں حفظ کروائیں ۔رمضان کے بابرکت ماہ کے دوران انہیں سونے اور جاگنے ،کھانے سے پہلے اور بعد کی، سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کی، بیت الخلاء میں داخل ہونے اور نکلنے کی مسنون دعائیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
یاد رکھیئے بچوں کو ان بابرکت کاموں کے لیے آپ جتنی بار یاد دہانی کروائیں گے، آپ اتنے ہی ثواب کے حقدار بنیں گے۔ بچوں کے ساتھ مل کر تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیجیے، دن میں کم از کم ایک بار تلاوت کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ بٹھائیے اور وہ جس بھی پارے پر ہوں ان سے ان کے سبق کی تلاوت کروائیے۔ اس تلاوت پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تذکرہ کیجیے اور محبت بھرے تعریفی کلمات سے ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
یاد رکھیے آپ کی محبت بھری توجہ اور آپ کا وقت آپ کے بچوں کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ بچوں کو بتدریج روزہ رکھنے کی عادت ڈالیے، چھوٹے بچوں کو افطار سے کچھ دیر پہلے کھانا اور پینا افطار تک مؤخر کرنے کی ترغیب دیجئے، نسبتاً بڑے بچوں کو جن پر روزے فرض ہونے والے ہوں، رمضان میں وقفے وقفے سے روزے رکھوایئے اور بتدریج ان کی تعداد میں اضافہ کیجیے۔
افطاری کے لیے دسترخوان لگاتے وقت بچوں سے مدد لیجیے، تاکہ ان میں خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ بچوں کے ہاتھ سے صدقہ وخیرات دلوائیے اور ایثار کا جذبہ پیدا کیجئے۔ انہیں اللہ کی بے شمار نعمتوں کا احساس دلوائیے جو ان کے پاس موجود ہیں، ان میں شکر کا جذبہ پیدا کیجیے۔
بچوں کو بڑوں کا ادب ، چھوٹوں پر شفقت کرنے، سب سے اچھے لہجے میں گفتگو کرنے، پڑوسی ، یتیم، رشتے داروں اور بیواؤں کا خیال رکھنے اور عام لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ کھانے پینے اور سونے وغیرہ میں نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے ترغیب دیتے رہیں۔ گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چوری، رشوت اور سگریٹ نوشی سے دور رہنے کی ان کو تعلیم دیتے رہیں۔
خود بھی پوری زندگی صرف حلال روزی پر اکتفاء کریں اور بچوں کو بھی صرف حلال روزی کھانے کی ترغیب دیتے رہیں۔ وقتاً فوقتاً انہیں موت یاد دلاکر اخروی زندگی کی تیاری کے لئے ان کی ذہن سازی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو نیک و صالح بنائے۔ ہمارے مرنے کے بعد انہیں ہمارے لئے دعا کرنے والا اور صدقہ جاریہ بنادے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت والد ہمیں اپنا کردار نبھا تے ہوئے منہج انبیاء کے مطابق اپنی اولاد کی بہتر تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)