• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف جدید سائنس نے انسان کے لیے جہاں کئی آسائشیں پیدا کردی ہیں تو وہیں دورِ جدید کی تیز رفتار زندگی نے انسان کو فطرت سے بھی دور کردیا ہے۔ آج کے زمانے میں انسان ’’اِن ڈور‘‘ کا ہوکر رہ گیا ہے۔ 

ہم اپنے اِرد گِرد پر بھی اگر ایک نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ گھر میں چھت کے نیچے اور کام کی جگہ پر بھی ایک چھت تلے اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ دورانِ سفر بھی زیادہ تر لوگ ایک طرح سے ’’اِن ڈور‘‘ ہی رہتے ہیں۔

ہمارا یہ ’’لائف اسٹائل‘‘ دیکھنے میں تو ہمیں بہت ہی سہل اور پُرآسائش معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم سست پڑنے کے ساتھ ساتھ ہماری صحت بھی کمزور پڑتی جارہی ہے، کیونکہ سہل پسندی کے باعث ہمارا جسمانی مدافعتی نظام ’’کمزور‘‘ اور ’’نازک‘‘ بنتا جارہا ہے۔

ماہرین کے مطابق، آج کے تیز رفتار دور میں، فطرت سے جُڑے رہنے اور اچھی صحت کو قائم رکھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی روز مرہ کے معمولات میں روزانہ کی بنیاد پر ورزش کے لیے وقت مختص کردے۔ 

ورزش کا اوسط یومیہ دورانیہ 30منٹ سے کم نہیں ہونا چاہیے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر شخص کو روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کرنی چاہیے۔ تاہم بدقسمتی سے دنیا بھر کے نوجوانوں کو اس اہم روزمرہ کی سرگرمی کے لیےنہ تو فرصت ہے اور نہ ہی انھیں ضروری وسائل دستیاب ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کیا کہتا ہے؟

صحت کے عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر 5میں سے 4بچے صحت مند اندازِ زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا جائزہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ درکار ورزش نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما اور معاشرتی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ایک گھنٹے کی ورزش نہ کرنے کا مسئلہ غریب اور امیر دونوں ممالک میں موجود ہے۔

ورزش اور صنفی فرق

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ جائزہ 146ممالک میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے چار ممالک ایسے ہیں، جہاں لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ورزش کرتی ہیں، ان میں ٹونگا، ساموئا، افغانستان اور زامبیا شامل ہیں۔ باقی 142ملکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کے ورزش کرنے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ورزش میں سب سے آگے بنگلہ دیشی بچے ہیں مگر وہاں بھی 66 فیصد بچے ایک گھنٹے کی ورزش نہیں کر رہے۔ فلپائن میں لڑکے (93 فیصد) اور جنوبی کوریا میں لڑکیاں (97 فیصد) سب سے کم ورزش کر رہے ہیں۔ 

برطانیہ میں 75 فیصد لڑکے اور 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ہدف تک ورزش نہیں کر رہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ورزش نہیں کر پا رہیں اور 78 فیصد لڑکے ایسا نہیں کر پا رہے۔

نوجوانوں میں کم ورزش کے رجحان کی وجوہات

ماہرین کے مطابق، ورزش کرنا نہ کرنا درحقیقت ترجیحات کی بات ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے جائزے میں کم ورزش کرنے کی وجوہات کو تو شامل نہیں کیا گیا، تاہم کچھ باتیں عام رجحان معلوم ہوتی ہیں۔ ایک وجہ جسمانی صحت کے مقابلے میں تعلیمی کارکردگی پر توجہ ہے۔ 

رپورٹ کی مصنفین میں سے ایک لیئین رائلی کہتی ہیں، ’’اس عمر کے بچوں کو پڑھائی پر زور دینے کے لیے بہت کہا جاتا ہے۔ وہ اکثر دن کا ایک بڑا حصہ بیٹھ کر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں، اسی لیے انھیں ورزش کے مواقع کم ملتے ہیں‘‘۔ 

محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیلوں کی سہولیات کے محفوظ ہونے، ان تک رسائی ہونے اور ان کی لاگت کم ہونے کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آئے ہیں۔

صحت سے مزید