پروفیسر خالد اقبال جیلانی
رمضان المبارک کے مہینے میں ایمان والے مختلف النوع اور ہمہ جہت عبادات و ریاضات کے اہتمام کے ذریعے اپنے خالق کا بے انتہا تقرب حاصل کر لیتے ہیں۔ اپنے روحانی سفر کی ان تمام منزلوں کو بیک جست طے کر لیتے ہیں، جنہیں وہ سال کے بقیہ گیارہ مہینوں میں دنیا کی مادی مصروفیات میں منہمک ہونے کی وجہ سے حاصل کرنے کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کی متنوع اور ہمہ پہلو عبادات میں سے ایک اہم ترین، مخصوص اور مہتم بالشان عبادت ، نماز ِ تراویح ہے۔ دن کا روزہ اور رات کی تراویح رمضان کی دو اہم اور کلیدی عبادات ہیں۔
یعنی جہاں دن میں روزے کا اہتمام کیا جائے، وہاں رات کو تراویح کا بھی التزام رکھا جائے۔ روزہ اور تراویح کی اسی اہمیت و افادیت اور لازم و ملزدم حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے دو ہم وزن الفاظ ’’صیام و قیام‘‘ کا احادیث میں استعمال کیا گیا۔ صیام یعنی روزے اور قیام یعنی تراویح، گویا کہ روزہ اور تراویح دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لہٰذااس اعتبار سے تراویح روزے کا جزوِ لاینفک ہے۔
رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرامؓ کے زمانہ اقدس سے ہر زمانے اور عہد میں رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام تواتر و تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے او ر تراویح کے سنتِ موّکدہ ہونے پر امت کا اجماع رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے متعدد احادیث مبارکہ میں تراویح کے فضائل و برکات اور اہمیت روایت کئے گئے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان و یقین کے ساتھ قیام کرے (نماز تراویح ادا کرے ) تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ ’’(ریاض الصالحین)
حضرت ابوہریرہؓ ہی سے ایک دوسری روایت اس طرح منقول ہے ’’رسول اللہ ﷺ ہمیں رمضان کی راتوں میں قیام کرنے یعنی تراویح کی خوب ترغیب دیا کرتے تھے۔‘‘ (ریاض الصالحین)رسول اللہ ﷺ نے رمضان کی راتوں میں تراویح کا مکمل و ہمیشہ تو اہتمام نہیں فرمایا۔ صرف چند راتوں میں آپ کی حیاتِ مبارکہ میں تراویح کی ادائیگی کا ذکر ملتا ہے۔
اس کی توجیہ حضرت زید بن ثابتؓ سے یوں مروی ہے کہ ’’آپ ﷺ نے جب تراویح کے حوالے سے صحابۂ کرامؓ کا ذوق و شوق اور نمازِ تراویح میں ان کی کثیر تعداد میں شرکت دیکھی تو آپ ﷺ کو تراویح کی فرضیت کا اندیشہ ہوا، اور ہم سے فرمایا کہ اگر تم پر نماز تراویح فرض کی دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے۔‘‘ لہٰذا آپ ﷺ نے تراویح کی جماعت میں اپنی شمولیت ترک کر تے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا کہ تم اسے گھروں پر ادا کیا کرو‘‘۔ (مشکوۃ شریف)
آپ کی اس ممانعت کے بعد صحابہ کرامؓ انفرادی طور پر نمازِ تراویح ادا کرتے رہے، ایک بار آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں چند صحابہ کرام ؓ کو حضرت ابی بن کعب ؓ کی امامت میں تراویح ادا کرتے ملاحظہ فرمایا تو اس پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور صحابہؓ کی اس جماعت کی تعریف و تحسین فرمائی۔‘‘ (حیات الصحابہ، ج 3، ص 219)
اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی میں یہ مناظر ملاحظہ فرمائے کہ صحابہ کرامؓ مختلف مختصر مختصر ٹولیوں کی شکل میں با جماعت نماز تراویح ادا فرما رہے ہیں، جس سے مختلف ائمہ کی آوازیں آپس میں ٹکرانے سے مسجد میں شور شرابے کی سی کیفیت ہے تو حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓکی ان مختلف جماعتوں کو ایک بڑی جماعت کی شکل میں جمع فرمادیا۔ جن کی امامت حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ۔ تمام جید صحابہ کرام ؓنے حضرت عمر ؒ کے اس اقدام کی تائید کرتے ہوئے اس سے اتفاق کیا۔ اس طرح صحابہؓ پابندی کے ساتھ تراویح ادا کرتے رہے۔
حضرت عمر ؓ کے وصال کے بعد حضرت علی ؓ نے آپ کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ـ’’ اللہ عمرؓ کی قبر کو اسی طرح نور سے معمور رکھے، جیسے انہوں نے ہماری مساجد کو قرآن کے نور سے معمور کر دیا‘‘۔ (حیات الصحابہ) نماز تراویح کی اصل اہمیت اور افادیت یہ ہے کہ تراویح فہم قرآن اوراشاعت قرآن کی تیاری کی ایک مسلسل تحریک ہے جس کا ریفریشر کورس امت کو ہر سال رمضان میں کرایا جاتا ہے۔
قرآن کریم انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ اور نظام حیات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح میں حفاظِ کرام کا کم و بیش 27دنوں میں اس ضابطہ حیات کا پڑھنا اور سمجھنا اس مقصد کے لئے ہے کہ ہم زندگی کے فرائض سے واقف ہو جائیں اور اس آگہی مہم کے بعد ہماری زندگی کا ہر قدم اس کے مطابق اٹھے۔
نماز تراویح میں پورا قرآن ختم کرنے کی اصل غایت یہی تھی کہ ملتِ اسلامیہ کا ہر ہر فرد قرآن کریم کے احکام و مسائل کو سال میں کم از کم ایک بار سن لے، سمجھ لے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے، تاکہ قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ اور معاشرے میں نظام قرآنی کی تنفیذ ہو سکے اور تمام غیر خداوندی قوانین مٹ جائیں۔ چونکہ قرآن کریم رمضان کے اسی مہینے میں نازل ہواتھا ،اس لئے یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے اور نمازِ تراویح اسی جشن کی تکمیل کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔
آج کل اکثر لوگ خصوصاً نوجوان پانچ روزہ، دس روزہ تراویح کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ پانچ دس دن کی تراویح میں قرآن کریم سن کر بقیہ تراویح کی چھٹی کر دیتے ہیں۔ حالانکہ تراویح میں مکمل قرآن سننا ایک علیحدہ سنت ہے لہٰذا رمضان میں جتنے روزے ہوں تیس یا انتیس اتنی ہی تراویح مستقل سنت ہے۔ اگر پچیس یا ستائیس رمضان کو ختم قرآن ہو جائے ،تب بھی بقیہ روزوں تک تراویح ہر گز نہیں چھوڑی جا سکتی۔ جتنے روزے اتنی ہی تراویح کا اصول ایک مسلّمہ سنت ہے۔
تراویح میں غفلت اور سستی ہی کے ضمن میں یہ مشاہدہ بھی عام ہے کہ جب رمضان کا آغاز ہوتا ہے اور تراویح شروع ہوتی ہے تو مساجد میں عشاء کی نماز اور تراویح میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ مساجد کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ دو تین تراویح تک نمازیوں کی تعداد کی یہی صورتحال رہتی ہے، لیکن تیسری تراویح کے بعد سے نمازیوں کی یہ تعداد کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور گھٹتے گھٹتے یہ تعداد پانچویں چھٹی تراویح میں پانچ چھ صف رہ جاتی ہے اور دسویں تراویح تک یہ تعداد بھی کم ہو کر تین چار صف ہی رہ جاتی ہے۔
ایسے لوگوں میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور صحت مند افراد کی ہوتی ہے۔ یہ تراویح کی اہمیت و مشروعیت، اس کے مسنون ہونے اور تراویح سے متعلق چند کوتاہیوں کی نشاندہی ہے جس پر توجہ اور اس کے ازالے کے لئے کوشاں ہونے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم رمضان المبارک کی اس عظیم عبادت کے اجرو ثواب کے مستحق بن سکیں، ناکہ یہ عبادت ہمیں بجائے ثواب کے عتاب اور سزا کا سزاوار نہ بنادے۔( الامان والحفیظ) اللہ ہمیں دین، اعمال دین اور اپنی اطاعت پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔