• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امرت دھارا اُس محلول کو کہا جاتا ہے جس میں ہر مرض کی شفا اور ہر اُلجھے ہوئے مسئلے کا حل موجود ہو۔ ہماری قوم کو اِس وقت ایسے محلول کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ سیاسی کشیدگی نے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِاعظم میاں شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی جسے قائدِ حزبِ اختلاف نے بڑی رعونت سے ٹھکرا دِیا۔ غالباً اِس کا ایک سبب ماضی کے واقعات بھی ہو سکتے ہیں جن میں مذاکرات کا ڈراما بڑے مضحکہ خیز انداز میں کھیلا گیا۔ دونوں طرف سے مذاکراتی ٹیموں کا جس بے دلی اور غیر سیاسی پیرائے میں انتخاب کیا گیا، اُس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ نیتوں میں کچھ کچھ فتور پایا جاتا ہے۔ اب وزیرِاعظم کی طرف سے مذاکرات کی محض پیشکش سے کام نہیں چلے گا کوئی اعتماد ساز قدم بھی اٹھانا ہو گا۔ ہم پہلے بھی یہ تجویز دیتے آئے ہیں کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جو سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں، اُنہیں جیل سے گھر منتقل کر دیا جائے اور اُن کے علاج پر خاطرخواہ توجہ دی جائے۔ گھر پر نظربندی کی مثالیں بکثرت موجود ہیں، اِس لیے اربابِ حکومت کو ماحول میں ہر لحظہ بڑھتے ہوئے تناؤ پر قابو پانے کیلئے یہ مثبت قدم اٹھانا چاہیے۔

ہمارے اربابِ سیاست کو یہ تلخ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سیاسی مذاکرات سے انکار یا پہلوتہی سے پاکستان کی سالمیت کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ سیاسی مذاکرات میں عدم شمولیت کے سبب پیش آیا تھا۔ آج بھی پاکستان اَن گنت خطرات میں گِھرا ہوا ہے جن میں وہ ’اہلِ دانش‘ آئے دن ہولناک اضافہ کرتے رہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کا تیا پانچہ کرنے پر تُلا ہوا ہے اور اُسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے حالانکہ چند ہی دنوں کے دوران ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن سے امریکہ کی تنہائی اور بےکسی واضح ہو رہی ہے۔ یورپ جو کبھی امریکہ کا بہت بڑا حلیف تھا، اُس میں اب امریکہ مخالف جذبات غیر معمولی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جرمنی جو اَمریکہ کا ایک مضبوط بازو سمجھا جاتا تھا، اُس کے حالیہ انتخابات میں وہ سیاسی جماعت بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ سکتی ہے جس کی صدر ٹرمپ شدید مخالفت کرتے آئے ہیں۔ یہ واقعہ بھی پیش آ چکا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں فرانسیسی صدر میکرون نے صدر ٹرمپ کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تم حقائق سے یکسر بےخبر ہو اَور تم نہیں جانتے کہ تمہارے اعلانات آنے والے دنوں میں کیا غضب ڈھانے والے ہیں۔

ایک زمانے میں ہٹلر نوجوانوں کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ اُس نے لچھےدار تقریروں سے اپنے ہم وطنوں کو یہ باور کرا دِیا تھا کہ دنیا پر حکومت کرنے کا حق صرف اُنہی کو حاصل ہے۔ اُس نے جرمنی میں بڑی بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھا دیا تھا تاکہ جرمن فوجیں آسانی سے ہمسایہ ملکوں میں داخل ہو سکیں۔ بےمثال جنگی تیاریوں کے ذریعے ایک ناقابلِ تسخیر فوج تیار کر لی گئی تھی جو یورپ کے ممالک فتح کرتی چلی گئی۔ ہٹلر کو اِقتدار کے نشے میں سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آئی۔ وہ سوویت یونین پر چڑھ دوڑا جو اُس کی لرزہ خیز شکست کا باعث بنا اور ہٹلر کو اَپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کرنا پڑی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ جنگ میں لاکھوں انسان مارے گئے اور عظیم الشان ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار جرمنی جذبات کی آگ میں جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ پاکستان میں بھی جذبات کی آگ دہکائی جا رہی ہے اور نفرتوں کے شعلے قریہ ہائے دل اُجاڑتے جا رہے ہیں۔ اِن خونخوار نفرتوں پر جلد سے جلد قابو پانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو طاقت کے بجائے محبتوں کے نسخۂ شفا سے مسخر کرنا ہو گا۔ نسخۂ شفا کا اوّلین اصول عفو و دَرگزر اَور دُوسرا اُصول دانائی اور اَپنائیت سے اچھی باتیں دلوں میں اتارنا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مقبولیت کا جنون آسانی سے نہیں اُترتا، مگر تاریخ کی مثالیں آخرکار آنکھیں کھول دیتی ہیں۔

ہمارا گزشتہ کالم اِس اعتبار سے قابلِ ذکر ہے کہ اُس میں خاکسار نے اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اہلِ بینش محسوس کرتے ہیں کہ ادیب، دانش ور اَور صحافی قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں، اِس لیے اُن کی نگہداشت کی ذمےداری اربابِ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کالم کی اشاعت کے فوراً بعد وزیرِ منصوبہ بندی برادرم اَحسن اقبال کا فون آیا جن کے ساتھ نظریاتی رشتہ اُس وقت سے قائم ہے جب وہ اِنجینئرنگ یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے۔ وہ عیادت کے لیے آئے اور ساتھ گلدستہ بھی لے آئے۔ رات آٹھ بجے جناب وزیرِاعظم کا فون آیا۔ اُنہوں نے پُرسشِ احوال کے بعد کہا کہ مَیں نے آپ کی صحت کی بحالی کے لیے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دے دیا ہے۔ اِس کے ساتھ اپنے پی ایس او اِرشاد کے ذریعے گلدستہ بھی بھجوایا۔ اُسی روز میاں نوازشریف نے بھی نیک تمناؤں کے ساتھ گلدستہ بھیجنے کا اہتمام کیا۔ آدھ گھنٹے بعد پنجاب کے وزیرِصحت خواجہ سلمان رفیق کا فون آیا۔ نو بجے کے قریب شیخ زائد اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر اکبر حسین اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پروفیسر سیّد اصغر نقی کے فون آئے کہ ہم اپنے لائق اور تجربے کار ڈاکٹر حکومت کی طرف سے بھیج رہے ہیں۔ شیخ زائد اسپتال سے رات بارہ بجے ڈاکٹر عبدالجبار غریب خانے پر تشریف لے آئے اور کوئی ایک گھنٹہ جسم کا معائنہ کرتے اور مختلف آپشنز زیرِبحث لاتے رہے۔ دوسرے روز علی الصباح ڈاکٹر کامران اقبال تشریف لے آئے۔ اِن مہربانوں کی شبانہ روز کوششوں سے کھانسی پر قابو پا لیا گیا۔ مَیں جناب وزیرِ اعظم اور مخلص ڈاکٹر حضرات کا شکر گزار ہوں کہ وہ مشکل کی گھڑی میں میرے کام آئے۔ مَیں اَن گنت خیر خواہوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو میری صحت کے لیے ربِ کائنات سے دعائیں مانگتے رہے۔ مَیں بھی اپنے خالقِ حقیقی سے دعاگو ہوں کہ وہ مجھے مکمل صحت سے نوازنے کے ساتھ اپنے پسندیدہ کام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ مَیں اِس موقع پر ایک ناقابلِ فہم واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ دو بار حکومت کے پریس ریلیز میں میرا نام الطاف حسن قریشی کے بجائے الطاف حسین شائع ہوا ہے جو شخصیت کو اُدھیڑ دینے کے مترادف ہے۔ اِس کوتاہی کا ازالہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

تازہ ترین