• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ اور عالمی مزاحمتی تحریک کی ضرورت

امریکی صدڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت دنیا کو حیرا ن کر دیا، جب اس نے غزہ پر قبضہ کر کے اسے امریکہ کی ملکیت بنانے اور غزہ کے بائیس لاکھ باسیوں کو انکی سرزمین سے بے دخل کرکے اردن اور مصر میں بسانے کا اعلان کیا۔ مصر، اردن اور عرب ممالک کے علاوہ یورپین ممالک نے بھی اس منصوبے کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے جو علاقے میں مزید تباہی، انتہا پسندی اور عدم استحکام کو جنم دے گا۔ ٹرمپ کے مطابق وہ اردن اور مصر کو ہر سال اربوں ڈالرز دیتے ہیں اور اگر انہوں نے فلسطینیوں کواپنے ہاں آباد نہ کیا تو وہ یہ امداد بند کر دیں گے۔ گزشتہ سال ٹرمپ کے دامادجیرڈ کشنر نے غزہ کو شہریوں سے خالی کر کے ’’واٹر فرنٹ پراپرٹی‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین ٹرمپ کی دھونس اور دھمکیوں کی پالیسیوں کو ہٹلر کی حکمت عملی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ ہٹلر اقتدار میں اس وقت آیا جب جرمنی شدید اقتصادی بحران میں مبتلا تھا اور سیاسی طور پر اتنا تقسیم تھا کہ نئی قانون سازی تقریباً ناممکن ہو چکی تھی اور جرمنوں کا اپنے سیاستدانوں پر اعتمادبھی ختم ہو چکا تھا۔ اس ماحول میں ہٹلر بہت سارے جرمنوں کیلئے نجات دہندہ بنا کیونکہ اسکا پروپیگنڈا ایسے پرکشش اور رومانوی منصوبوں پرمبنی تھا جس میں جرمنی کو اسکی سابقہ عظمت واپس دلانے کے ساتھ ساتھ، معیشت کو درست کرنے، اپنے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور جرمن عوام اور انکے حقوق کا ہر قیمت پر دفاع کرنا شامل تھا۔ ایسا ماحول پیدا کرنے کے چند سال بعد ہی ہٹلر نے جرمنی کے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی جگہ آمریت قائم کر لی۔ اس وقت تک جرمن عوام کی اکثریت اس سے محبت کرتی تھی اور بہت سے لوگ تو گویا اسکی عبادت بھی کرتے تھے۔ پھر ہٹلر نے آسٹریا پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور چیکوسلواکیہ پر چڑھائی شروع کر دی۔ پولینڈ پر حملے تک باقی یورپ اسی طرح خاموش رہا جس طرح آج امریکہ میں مرکزی دھارے کا سیاستد ان ٹرمپ کے صہیونی ارادوں پرخاموش ہے۔ اگرچہ نازیوں نے یہودیوں پر ظلم و بربریت کا جو ماحول بنایا تھا، اس کا کھلم کھلا کبھی انہوں نے اعلان نہیں کیا جبکہ صدر ٹرمپ اپنے ظالمانہ ارادوں اور منصوبوں کا کھل کر اعلان کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ، کینیڈا، گرین لینڈ اور پانامہ تو صرف شروعات ہیں اور اگر وہ ہٹلر کی پالیسیوں پر گامزن رہے تو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت کی روانی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

غزہ کے متعلق تشویش ناک اعلان کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ F-35جیٹ طیاروں سمیت اربوں ڈالرز کے جدید ہتھیاروں اور جوہری ری ایکٹرز کے منصوبوں کا اعلان کر کے اس خطے میں امن و استحکام کیلئے شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ اس نے اقوام متحدہ کے تمام اداروں، جنہیں امریکہ سے امداد ملتی تھی، سے دوری اختیار کر لی ہے اور صرف انہی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کا عندیہ دیا ہے جو امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس نے نیٹو ممالک کو خبردار کیا ہے کہ عالمی سامراجیت برقرار رکھنے کیلئے یورپین ممالک کو فوجی اخراجات میں اضافہ کرنا ہو گا جس سے یورپ میں فلاحی ریاست کے تصور کر شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار میں واپسی کے ایک ہفتے بعد ہی امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے بجٹ کو منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے نہ صرف ہزاروں ملازمین کی برطرفی بلکہ دنیا بھر کی این جی اوز کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایجنسی 120ممالک، جن میں زیادہ تر دنیا کے غریب ترین ممالک شامل ہیں، میں صحت اور ہنگامی پروگرام چلاتی ہے۔یہ ایجنسی 42.8ارب ڈالرز کی عالمی سطح پر امداد فراہم کرتی ہے جو انسانی امداد کا تقریباً 42فیصد حصہ بنتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے سرکاری محکموں اور نوکر شاہی میں نوکریوں کیلئے مظلوم طبقات، عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور سیاہ فام کے بارے میں جو ترجیحی پالیسی کئی سالوں سے رائج تھی، اسے فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے یہ اقدامات اور انکے نفاذ کا طریقہ خطرناک اور بے رحم ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے ایک مسافر بردار طیارے اور فوجی ہیلی کوپٹر کے تصادم کو انہی بھرتیوں کاپیش خیمہ قرار دیا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہر المیہ کو نازیوں کی طرح اپنی پالیسیوں کے حق میںجواز کے طور پر استعمال کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے بھی یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے حق میں اسی جواز کو پیش کیا تھا جس سے یہ امر واضح ہو جا تا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتقامی پالیسیوں سے نہ صرف اداروں کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ ایسا کرنے کیلئے امریکی قانون اور آئین کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے اور جو عدالتیں ان ظالمانہ اقدامات کو قانون اور آئین سے بالاتر قرار دے رہی ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی روایات امریکی سماج میں گہری جڑیں رکھتی ہیں اور یہ قوتیں جلد منظم ہو کر صدر ٹرمپ کو اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں گی۔ صدر ٹرمپ کے بین الاقوامی تعاون کے معاہدوں سے پیچھے ہٹنے کے بعد موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے عالمی مسئلے پر بھی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ یورپین یونین، جو روایتی طور پر عالمی سطح پر ماحول دوست پالیسیوں کی قیادت کرتا رہا ہے، وہ آج امریکی دباؤ اور داخلی معاملات کی وجہ سے ماحولیات کی پالیسیوں میں زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آ رہا۔ آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سامراجی پالیسیوں کے اثرات کو روکنے کیلئے دنیا کے تمام امن پسند دوست ایک عالمی مزاحمتی تحریک کی بنیاد ڈالیں تاکہ اس دنیا کے آٹھ ارب عوام ایک بار پھر امن اور خوشحالی کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔

تازہ ترین