• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارے میں نے سنا کہ تم نے آٹا گوندھنے والی مشین لے لی ہے؟؟ ہاں آپا ! ٹھیک سنا، سچ میں بہت آسانی ہو گئی ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اب مٹھیوں میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ گھنٹہ بھر بیٹھ کر دیسی آٹا گوندھ سکوں اور ویسے بھی نئی نئی ایجادات انسان کی سہولت اور آسانی کے لیے ہی تو بنی ہیں تو انہیں آزمانے میں کیا حرج ہے۔

میں نےمسکرا کر جواب دیا۔۔’’پر کیا خاک آٹا گوندھتی ہوگی مشین۔‘‘ میں انکو کچن میں لے جاکر مشین میں آٹا گوندھ کر دکھایا۔’’آپا ! شروع کے کچھ دن زرا مشکل رہی کہ پانی ڈالنے کا اندازہ نہیں ہوتا تھا تو کبھی ڈھیلا کبھی سخت رہ جاتا تھا،پر اب اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے۔ اور سب سے بہترین بات یہ ہے کہ اس میں گندھے آٹا کو ریسٹ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔

فوراً ہی روٹی بنا سکتی ہوں۔‘‘کھانے کا وقت بھی ہو چلا تھا سو جھٹ پٹ روٹی پکا کر سامنے رکھ دی۔ان کی بہو ساتھ تھی۔ اسے مشین بہت پسند آئی اور روٹی کی تعریف بھی کر دی۔پر آپا قائل نہ دکھائی دیں۔ جاتے جاتے ان کی بہو مشین کی قیمت اور دستیابی کی تمام معلومات لے کر گئی۔ 

چند دن بعد پتا چلا کہ بہو رانی نے، آپا کی مخالفت کے باوجود مشین خرید لی ہے اور آپا نے مشین میں گندھے آٹے کی روٹی کھانے سے انکار کر دیا ہے۔اور آپا کے لیے الگ سے ہاتھ سے آٹا گوندھا جاتا ہے۔

اب کچھ باتیں اس واقعے کے تناظر میں کہنی ہیں:

ایجادات انسان کی سہولت اور آسانی کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔تو آزمائے بغیر ان کو ریجیکٹ کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ پہلے ہاتھوں کے ساتھ ڈنڈے سے کوٹ کر کپڑے دھوئے جاتے تھے،پھر واشنگ مشین آئی تو بہت سے لوگوں نے اسے ریجیکٹ کیا، پھر سب نے ہی اسکی افادیت دیکھتے ہوئے استعمال کرنا شروع کر دی۔ 

پھر جدت آئی اور ملازمت پیشہ افراد کی سہولت کے لیے مشینیں فل آٹو میٹک ہو گئیں کہ نتھارنے کھنگالنے کا جھنجھٹ ہی ختم۔ اس پر بھی سب نے پہلے پہل خوب قدغن لگائی اور اب ہر کوئی اس مشین کے حق میں ہے۔

یہی سفر فریج سے ڈیپ فریزر، دستی پنکھوں سے الیکٹرک پنکھوں، پنکھوں سے اے سی، سپلٹ، ڈسی انورٹر اور سینٹرلی کولنگ سسٹم تک طے ہوچکا ہے۔ اس لیے اپنی ہم عصر نسل دادیاں، نانیاں بن جانے والیوں اور والوں سے گزارش ہے، اگر گھر میں موجود نئی نسل اپنے لیے اپنے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے،گھر چلانے کے لیے نئی جدتیں اپنانا چاہتی ہو تو اسے موقع ضرور دیں۔

روٹی عزت سے بیڈ یا ٹیبل پر مل جائے تو الحمدللہ کر کے کھائیں، آٹا کیسے گندھا گیا، مسالے گرائینڈر میں پسے یا سل بٹے پر یا لنگری کونڈے میں، یا بنے بنائے پیکٹ والے یہ تفتیش نہ کیا کریں۔ گھر صاف ستھرا رہتا ہے تو صفائی کے عوامل کی کھوج یا تنقید میں نہ پڑیں کہ جھاڑو بیٹھ کر لگائی گئی یا ریوالونگ موپ سے، پوچہ بیٹھ کر لگایا گیا یا وائپر پر تولیہ لپیٹ کر۔یا ماسی سے کام کروایا گیا ہے۔

کچن برتن صاف ہیں تو جالی کا کپڑا برتن دھونے کے لیے استعمال کیا گیا ہو،یا فام،صابن استعال کیا گیا ہے یا واشنگ لیکوڈ،صاف ستھرے برتنوں میں کھانا کھا کر خوش ہو جایا کریں۔ کپڑے دھلے دھلائے استری ہو کر مل جائیں تو آٹو میٹک مشین کی خامیاں گنوانے نہ بیٹھ جایا کریں۔ اور نہ اپنا ڈنڈے سے کوٹ کر کپڑے دھونے والا عمل یاد کر، کرکے، خود کو جفاکش اور موجودہ نسل کو ہڈ حرام ہونے کے طعنے دیا کریں۔

یقینا ًکچھ پڑھنے والوں کو ان باتوں سے اختلاف ہو۔ پر جب اپنا زمانہ گزر جائے، تو انسان کو صبر، برداشت اور تحمل اور بردباری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا چاہیے۔ ہر وقت ماضی کو یاد کر ،کرکے اپنے گزرے اور موجودہ دور کا مقابلہ نہیں کریں۔زمانوں کا فرق ایک عالمگیر سچائی ہے۔بقول محسن نقوی کے۔

محسن ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

تو عرض ہے کہ نئے زمانے اور نئی نسل کے ساتھ بردباری اور تحمل کے ساتھ، کچھ مان کے کچھ منوا کر رہنا سہنا سیکھنے میں ہی ہم بزرگوں عظمت ہے۔ دستیاب نعمتوں کا موازنہ، گزری نعمتوں سے کرکے، موجودہ پر تنقید کرتے رہنا بھی ناشکری کے زمرے میں آتا ہے اور ناشکری سے اللہ پاک نعمتیں چھین لیتا ہے۔ (منقول)