یہ فرسودہ نظام اس قدر گل سڑ چکا ہے کہ اب اسکے وظیفہ خوار بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے صوبائی محکمہ زکوٰۃ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ سالانہ 30کروڑ روپے تقسیم کرنے ہوتے ہیں اور محکمہ زکوٰۃ کے انتظامی اخراجات پر ایک ارب 60کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ صوبائی محکمہ زکوٰۃ کے پاس 80گاڑیاں ہیںمگر دو سال سے زکوٰۃ کی رقم تقسیم نہیں ہوسکی۔ یہ محض بلوچستان کا المیہ نہیں دیگر صوبوں میں بھی کم وبیش یہی صورتحال ہے۔ ہر سال یکم رمضان کو بینک کے کھاتہ داروں سے جو کٹوتی ہوتی ہے وہ سینٹرل زکوٰۃ فنڈ میں جاتی ہے اور وہاں سے آبادی کے تناسب سے صوبائی زکوٰۃ فنڈ میں چلی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2021-22ء میں پنجاب کو اس مد میں تقریباً4091ملین روپے موصول ہوئے۔ پنجاب کے محکمہ زکوٰۃ وعشر کے زیرانتظام ضلعی زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ زکوٰۃ کی یہ رقم مستحق افراد تک پہنچانے کیلئے سرکاری ملازمین کی ایک بہت بڑی فوج بھرتی کی گئی ہے۔ انتظامی اخراجات کے علاوہ اس میں سے کتنی رقم ضرورت مندوں تک پہنچ پاتی ہے اور کتنا حصہ خوردبرد ہو جاتا ہے، اسکا تخمینہ لگانے کی کوشش کی جائے تو آپ کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔
زکوٰۃ وصول کرنے کا موجودہ نظام جنرل ضیاء الحق کے متعارف کروائے گئے اسلامی نظام کا حصہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر 1980ء میں جاری کئے گئے زکوٰۃ و عشر آرڈیننس کے مطابق ہر سال یکم رمضان المبارک کو جس بینک اکاؤنٹ میں نصاب کے مطابق رقم موجود ہوتی ہے، اس سے اڑھائی فیصد زکوٰۃ کاٹ لی جاتی ہے۔ اس سال زکوٰۃ کا نصاب 179,689 روپے مقرر کیا گیا تھا۔ اصولاً زکوٰۃ تب واجب ہوتی ہے جب یہ رقم یا اسکے مساوی اثاثہ جات ایک سال سے موجود ہوں اور استعمال میں نہ لائے گئے ہوں لیکن ضیاالحق کے متعارف کروائے گئے اسلام کے مطابق آپ نے یکم رمضان سے ایک دن پہلے بھی اپنے سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروائے ہوں تو زکوٰۃ وصول کرلی جائیگی اور طرفہ تماشا یہ کہ اگر کسی کے اکاؤنٹ میں دس لاکھ روپے جمع کروائے گئے تھے اور منافع یعنی سود کے ذریعے یہ رقم بڑھکر دس لاکھ پچاس ہزار روپے ہو چکی ہے تو اس اضافی رقم پر بھی زکوٰۃ دینا ہوگی۔ اگرچہ زکوٰۃ کا یہ نظام پہلے ہی بہت مضحکہ خیز تھا مگر 18ویں ترمیم کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ ضیاءالحق کے دور میں 1983ء کے زکوٰۃ گزٹ کے مطابق ملک بھر میں زکوٰۃ کی تقسیم کیلئے 32000کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ مرکزی سطح پر قائم کی گئی زکوٰۃ کونسل کے اخراجات وفاقی حکومت جبکہ صوبائی سطح پر بنائی گئی زکوٰۃ کمیٹیوں کے انتظامی اخراجات صوبائی حکومتیں برداشت کیا کرتی تھیں۔ یونین کونسل کی سطح پر جو زکوٰۃ کونسل بنتی تھی اسکے ارکان پر زکوٰۃ فنڈ سے 2سے 10فیصد اخراجات کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مستحق افراد میں زکوٰۃ کی تقسیم کا کام بینک بلامعاوضہ سرانجام دیا کرتے تھے۔ بعدازاں مسلک کی بنیاد پر استثنیٰ کی گنجائش نکال لی گئی مگر لگ بھگ 30سال یہ نظام چلتا رہا۔2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے زکوٰۃ و عشر کی وصولی کا اختیار صوبوں کو دیدیا گیا اور تمام صوبوں نے قانون منظور کرکے صوبائی محکمہ عشر و زکوٰۃ تشکیل دیئے مگر عملاً یہ انتظام آج بھی وفاق کے پاس ہے۔ بینکوں میں کٹوتی کے ذریعے جتنی رقم جمع ہوتی ہے سینٹرل زکوٰۃ فنڈ میں چلی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر زکوٰۃ فنڈ میں سے حصہ دیتی ہے اور کسی قدرتی آفت کی صورت میں ریلیف فنڈ کیلئے بھی یہ رقم استعمال کرتی ہے۔ پرانے نظام کو برقرار رکھنے پر سب سے زیادہ اعتراض سندھ حکومت کو ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے مسلسل نہ صرف احتجاج کیا جاتا رہا ہے بلکہ بار بار مطالبہ کیا گیا ہے کہ 18ویں ترمیم کے مطابق صوبوں کو زکوٰۃ اور عشر جمع کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی مد میں سب سے زیادہ کٹوتی سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہے۔ پنجاب کو آبادی کے تناسب سے معقول حصہ مل جاتا ہے مگر بلوچستان اور خیبرپختونخوا جہاں زکوٰۃ کی کٹوتی نسبتاً کم ہوتی ہے، آبادی کے حساب سے انہیں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ سندھ حکومت نے کئی بار مشترکہ مفادات کونسل میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا ہے مگر ابھی تک تحفظات دور نہیں کئے جاسکے۔ ایک اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ صوبوں نے جو قوانین بنائے ہیں انکے مطابق بنائے گئے محکمے بظاہر تو ڈیپارٹمنٹ آف عشر و زکوٰۃ کہلاتے ہیں مگر زرعی آمدن پر عشر جمع کرنے کا سرے سے کوئی طریقہ کار اور نظام موجود نہیں ہے ۔
زکوٰۃ کا موجودہ ظالمانہ اور غیرمنصفانہ سرکاری نظام جو لوٹ کھسوٹ اور فضول خرچی پر مبنی ہے،اس پر لوگوں کا اعتماد بتدریج کم ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے افراط زر میں غیر معمولی اضافے کے باوجود زکوٰۃ وصولی میں خاطر خواہ بڑھوتری نہیں ہورہی اور سالانہ 10ارب روپے ہی حکومتی ذرائع سے اس مد میں جمع ہوپاتے ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان میں معیشت اور کاروبار کے تناظر میں محتاط انداز ے کے مطابق زکوٰۃ اور عشر کی مد میں ایک خطیر رقم جمع کرکے بہت بڑی سماجی تبدیلی برپا کی جاسکتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی مارچ 2023ء میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زکوٰۃ کی مد میں 2743ارب روپے جمع کئے جاسکتے ہیں جو جی ڈی پی کا چار فیصد بنتے ہیں۔ کہاں 10ارب روپے اور کہاں 2743ارب روپے۔ ماہ صیام کا آغاز ہونے سے پہلے بینکوں سے رقوم نکلوانا اس نظام پر عدم اعتماد کا واضح اظہار ہے اور کیوں نہ ہو ،بلوچستان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے ۔پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوا میں زکوٰۃ فنڈ کا حجم زیادہ ہونے کے باعث شاید صورتحال اس قدر گھمبیر نہ ہولیکن وہاں بھی ایک خطیر رقم انتظامی اخراجات اور پھر لوٹ کھسوٹ پر خرچ ہوجاتی ہے ۔بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اس گناہ بے لذت سے چھٹکارا حاصل کرلے اور ہر شخص کو انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا حق تفویض کردیا جائے یا پھر زکوٰۃ اور عشر کے نام پر سرکاری کھانچے ختم کرکے یہ رقم ان فلاحی تنظیموں اور اداروں کو دیدی جائے جن پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔