دنیا بھر میں تقریباً 28 کروڑ افراد ڈپریشن جیسے ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں جو نہ صرف انسان کے موڈ بلکہ اس کی شخصیت اور زندگی کے عمومی معیار کو بھی متاثر کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کی گئی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طرزِ زندگی میں چند مثبت تبدیلیاں، جیسے متوازن غذا، زیتون کے تیل اور خشک میوہ جات کا استعمال، باقاعدہ ورزش اور معیاری نیند، ڈپریشن کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
حالیہ تحقیق میں ماہرین نے کھٹے میٹھے رسیلے پھلوں (Citrus fruits)کے فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔ ایسے پھلوں میں کینو، مالٹااس نسل کے دیگر پھل شامل ہیں۔ تحقیق کے ذریعے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ روزانہ ایک درمیانے سائز کا تُرش پھل کھانے سے ڈپریشن کے امکانات میں تقریباً 20 فیصد کمی لائی جا سکتی ہے۔
تحقیق کی تفصیل اور نتائج
یہ تحقیق معتبر سائنسی جریدے ''مائیکرو بایوم'' میں شائع ہوئی جس میں 32 ہزار سے زائد درمیانی عمر کی خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ یہ خواتین ''نرسز ہیلتھ اسٹڈی II'' میں شامل تھیں اور 2003 سے 2017 کے دوران وقتاً فوقتاً اپنی غذا اور ذہنی صحت سے متعلق معلومات فراہم کرتی رہیں۔
تحقیق میں شامل خواتین کے اسٹول سیمپلز کا ڈی این اے سیکوینسنگ کے ذریعے تجزیہ کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ خواتین جو باقاعدگی سے مالٹے اور دیگر ترش پھل کھاتی ہیں، ان کے آنتوں میں 15 اقسام کے فائدہ مند بیکٹیریا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ان بیکٹیریا میں خاص طور پر ''فیکالی بیکٹیریم پراوزنٹزی'' (Faecalibacterium prausnitzii) شامل ہے جو جسم میں سوزش کم کرنے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مددگار سمجھا جاتا ہے۔
پہلے کی تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہی بیکٹیریا آنتوں کی مختلف بیماریوں جیسے ''آئریٹیبل باؤل سنڈروم'' (IBD)، موٹاپے اور یہاں تک کہ ٹائپ 2 ذیابیطس سے بھی بچاؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں!
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے ''ہیکن سیک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر'' نیو جرسی کے چیئر آف سائیکاٹری اور معروف مصنف ڈاکٹر گیری اسمال نے کہا کہ ''حالیہ تحقیق میں آنتوں کے بیکٹیریا، دماغی صحت اور موڈ کے درمیان دلچسپ تعلق سامنے آیا ہے۔ ترش پھلوں کے استعمال سے آنتوں میں ایسے بیکٹیریا کی افزائش ہوتی ہے جو دماغی نیوروٹرانسمیٹرز کی پیداوار کو بڑھاتے ہیں اور یوں خوشگوار موڈ پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ تحقیق اس قدیم کہاوت کو سچ ثابت کرتی ہے کہ: 'آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں'۔''
ڈاکٹر اسمال کا مزید کہنا تھا کہ ڈپریشن جو انسان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتا ہے، دنیا بھر میں 15 فیصد افراد کو زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں اپنا شکار بناتا ہے۔ اگرچہ سائیکو تھراپی اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات موثر علاج ہیں مگر مہنگے اور ہر ایک کے لیے دستیاب نہیں ہوتے۔ اس لیے قدرتی روک تھام کی حکمتِ عملی نہ صرف معاشرتی سطح پر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے بلکہ صحتِ عامہ میں بہتری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ڈپریشن اور بیکٹیریا کی کمی کا تعلق
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے یہ دلچسپ مشاہدہ بھی کیا کہ وہ افراد جو ڈپریشن کا شکار تھے، ان کے آنتوں میں ''فیکالی بیکٹیریم پراوزنٹزی'' کی مقدار نمایاں طور پر کم پائی گئی۔
اس حوالے سے تحقیق کے مرکزی مصنف اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کے انسٹرکٹر ڈاکٹر راج مہتا کا کہنا تھا کہ ''ہم نے پایا کہ روزانہ ایک درمیانے سائز کا مالٹا کھانے سے ڈپریشن کے خطرے میں 20 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اور یہ اثر خاص طور پر ترش پھلوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، کیونکہ جب ہم مجموعی پھلوں اور سبزیوں کے استعمال کو دیکھتے ہیں یا سیب اور کیلے جیسے دیگر پھلوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس طرح کا تعلق نظر نہیں آتا۔''
اسی تحقیق کی تصدیق مردوں میں بھی کی گئی جس کے لیے ''مینز لائف اسٹائل ویلیڈیشن اسٹڈی'' سے ڈیٹا لیا گیا اور وہاں بھی یہی بات سامنے آئی کہ جن افراد میں ''فیکالی بیکٹیریم پراوزنٹزی'' کی مقدار کم تھی، ان میں ڈپریشن زیادہ پایا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ بیکٹیریا دماغ میں موجود نیوروٹرانسمیٹرز جیسے ''سیروٹونن'' اور ''ڈوپامائن'' کی سطح پر اثر انداز ہوتے ہیں جو کہ ''ایس-ایڈینوسائل-ایل-میٹھایونین سائیکل '' نامی میٹابولک راستے کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ یہ راستہ نیوروٹرانسمیٹرز کی پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، جو نہ صرف نظامِ انہضام کو بہتر بناتے ہیں بلکہ دماغ میں جا کر مزاج کو بہتر اور خوشگوار بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
مزید تحقیق کی ضرورت
معروف گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ڈاکٹر روڈولف بیڈفورڈ کے مطابق آنتوں کے بیکٹیریا انسانی جسم کے کئی پہلوؤں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن میں مدافعتی نظام اور دماغی صحت بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس لحاظ سے اہم ہے کہ اگر ہم قدرتی طریقے جیسے متوازن غذا کے ذریعے ڈپریشن کو کم کر سکیں تو ہمیں ادویات پر کم انحصار کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر بیڈفورڈ نے مزید کہا کہ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے جس میں زیادہ افراد کو شامل کیا جائے اور بیکٹیریا کی اقسام اور ان کے جینیاتی اثرات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے۔
ان کے مطابق مائیکرو بایوم اور ذہنی صحت کے درمیان تعلقات پر تحقیق کا یہ صرف آغاز ہے، اور ابھی ہمیں اس شعبے میں بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔