• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

سرگنگا رام اور بھائی رام سنگھ دونوں کو آپ لاہور کا محسن کہہ سکتے ہیں۔ سرگنگا رام نےلاہور میں خوبصورت عمارات کی ڈیزائنگ کی جبکہ بھائی رام سنگھ نے ان کو تعمیر کیا۔بھائی رام سنگھ میو اسکول آف آرٹس (نیشنل کالج آف آرٹس) کے پہلے ہندوستانی پرنسپل تھے ضرورت اس بات کی ہے کہ لاہور کے اس محسن کی سمادھی بھی ان کے شایان شان تعمیر کی جائے۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سرگنگا رام جنہوں نے لاہور میں مال روڈ پر بے شمار عمارات تعمیر کی تھیں پوری مال روڈ پر حتیٰ کہ سرگنگا رام اسپتال میں بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہوا ۔آپ یہ دیکھیں دنیا اور پاکستان کی فضائی تاریخ کا وہ ہیروایئر کموڈورایم ایم عالم جس نےچار سیکنڈ میں 1965ء میں دشمن کے پانچجہاز گرا دیئے تھے ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ سات سیکنڈمیں سات طیارے گرائے تھے اب واللہ عالم کون سی بات درست ہے اس کے نام لاہور کی وہ سڑک جہاں پر بہترین کھانے پینے کے ہوٹلز اور دنیا بھر کے برانڈز کی دکانیں ہیں یعنی ایم ایم عالم روڈ اس پر کچھ نہیں لکھا ہوا کئی سال پہلے جب ایم ایم عالم حیات تھے تو وہ میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی (جنگ) کی دعوت پر ہمارے ایک سیمینارمیں الحمرا آئے تھے۔ سیمینار سے اگلے روزان کو ایئرپورٹ اپنی موٹر کار پر چھوڑنے کے لئے گئے راستے میں انہوں نے کسی نوجوان لڑکی کے لئے نرالا سویٹس جیل روڈ سے دو کلو مٹھائی خریدی جس کی ادائیگی انہوں نے خود کی۔اس کے بعد انہوں نے ہم سے کہا کہ سنا ہے میرے نام پر لاہور میں کوئی سڑک ہے آپ مجھے اس سڑک کا ایک چکر لگوادیں چنانچہ ہم نے ان کو ایم ایم عالم(محمود عالم) روڈ کا جب ایک چکر لگوایا تو انہوں نے کہا کہ یار ایک چکر اور لگوا دیں پھر پتہ نہیں لاہور آنا ہو یا نہیں ۔ہم ایم ایم عالم کے ساتھ ان کی وفات تک رابطے میں رہے اس زمانے میں ابھی ایم ایم عالم سڑک ایسی نہیں تھی ۔مٹھائی انہوں نے بہاولپور میںایک ایسی نوجوان لڑکی کے لئے خریدی تھی جو ان سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے پنجابی راجپوت گھرانے والوں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ایم ایم عالم بنگالی ہے ہمیں انہوں نے یہ واقعہ جب سنایا تو بہت جذباتی ہو گئے تھے انہوں نے اس لڑکی کے خط بھی ہمیں دکھائے وہ واقعی ان سے پیار کرتی تھی ایم ایم عالم نے ہم سے کہا کہ تم پنجابی بہت ظالم ہو ایم ایم عالم واقعی ایک سچا پاکستانی تھا۔دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ ایم ایم عالم کس درجے تک پاکستان سے پیار کرتا تھا کہ اس نے قسم کھائی تھی جب تک بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان نہیں بن جاتا وہ واپس مشرقی پاکستان نہیں جائے گا اور انہوں نے ایسا کیا ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک تقریب میں آئے تھے اور وہاں کم وبیش بیس ہزار کے قریب اسٹوڈنٹس تھے ہم بھی وہاں موجود تھے انہوںنے نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے بات کی اور اسٹوڈنٹس نے سوال کیا کہ ایم ایم عالم کون تھا ؟آپ یقین کریں بیس ہزار اسٹوڈنٹس میں کسی نے بھی ہاتھ نہیں کھڑا کیا دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو بھولتے جا رہے ہیں 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کا بہت اہم کردار ہے اور واہگہ بارڈر پر بنگال رجمنٹ نے بھی لاہور کی حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر آج پورے لاہور اور سرحدی علاقوں میں اس حوالے سے کوئی تحریر/پتھر نصب نہیں اب تو واہگہ جاتے ہوئے جن شہداء کی یادگاہیں ہیں وہ بھی آبادی میں چھپ گئی ہیں۔ بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے پچھلے کالم کے حوالے سے سرگنگا رام کا ذکر کرتے ہیں سرگنگا رام کایہ مکان ہیرا منڈی کی دو طوائفیں برکت بی بی اور عیدن بی بی کی ملکیت میں رہا ان دونوں طوائفوں کی کوئی اولاد نہیں تھی دونوں طوائفیں 1983اور 1984ء میں انتقال کر گئیں اور مرنے سے قبل اپنی وصیت میں یہ مکان سرگنگا رام ٹرسٹ کو دے دیا اور کہا کہ مریضوں اور طالبات کی ویلفیئر کے لئے اس پراپرٹی کو استعمال کیا جائے ۔ذرا دیکھیں ان دو طوائفوں نے مرنے سے قبل کس نیک مقصد کے لئے یہ مکان سرگنگا رام ٹرسٹ کو دے دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے سرگنگا رام ٹرسٹ کو یہ مکان کیوں دیا؟اس کے بارے میں ہمیں کوئی بات اب تک نہیں ملی پھر اس حوالے سے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے کہ سرگنگا رام کبھی اس مکان میں رہائش پذیر رہے۔ سرگنگا رام کا یہ مکان پھر اس کے قریب جج بازار سید محمد لطیف لوہاری دروازے میں دو دکانیں اورایک مکان سرگنگا رام کے آج بھی موجود ہیں جو گنگا رام ہسپتال کی ملکیت میں ہیں دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مکانوں اوردکانوں پر لوگوں نے قبضےکرکے عدالت سے اسٹے لے لیا ہے اور کرایہ صرف 260سے 300روپے تک دیتے ہیں جبکہ یہاں پر ایک ایک دکان کا کرایہ 25سے 50ہزار روپے تک ہے یہ انتہائی قیمتی زمین ہے یہاں پر ایک کٹڑی بھی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت سرگنگا رام کے ان مکانوں میں فوری طور پر ان کے نام پر فری ڈسپنسریاں یا چھوٹے کلینک یا پانچ/سات بیڈز کے ہسپتالز بھی بنائے۔ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں حکومت کا اس مکان میں ایک میوزیم بنانے کا منصوبہ تھا مگر ان کی حکومت ختم ہونے پر یہ منصوبہ بھی التوا میں چلا گیا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سر گنگا رام کے جو مکان اندرون شہر ہیں ان کا بہترین مصرف لایا جائے تاکہ وہ خفیہ مافیا سے محفوظ رہیں ۔

اس مکان پر یہ تختی لگی ہوئی ہے کہ سرگنگا رام سول انجینئرمخیر شخصیت 1851ء سے 1927ء تک یہاں رہتے تھے۔ دوسری طرف سرگنگا رام ہیلی کالج آف کامرس اولڈ کیمپس (اب ہیلی کالج آف بینکنگ) والی جگہ بھی رہائش پذیر رہے اور لاہور میںان کے تین گھر تھے کوئی ایسا تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ سرگنگا رام ہیرا منڈی والے مکان میں رہائش پذیر رہے ہوںیہ بات تو تسلیم کی جاسکتی ہے کہ یہ مکان ان کی ملکیت میں ضرور ہو گا کیونکہ سرگنگا رام کی لاہور اور دیگر شہروں میں بہت پراپرٹی تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین