• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسے وہ ہیں، ہم انہیں ویسا دیکھتے ہیں جیسے ہم چاہتے ہیں۔ یعنی آنکھ صرف وہی دیکھتی ہے جس کو سمجھنے کے لیے دماغ تیار ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ اہم نہیں کہ آپ کیا دیکھتے ہیں ،اہم یہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں۔دیکھنا ایک بڑی نعمت ہے۔روشنی کی اہمیت بھی صرف انہی کیلئے ہے جو دیکھتے ہیں ۔گزشتہ روز میں نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر اور پنجاب حکومت آپس میں دست و گریباں ہیں ۔پی ٹی آئی پنجاب کے نزدیک یہ تقریب لاہور کے سیاسی افق پرایک اہم شام تھی ۔ان کے خیال میں ملک احمد بھچر نے کوئی رسمی خطاب نہیں کیا بلکہ ایسی گفتگوکی ہے جس نے اقتدار کے دعووں اور حقیقتوں کے درمیان ایک آئینہ رکھ دیا کہ وائٹ پیپر کا عینک لگا مطالعہ کیجئے ۔اب عینکیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔میں ساری تقریب کواور طرح کی عینک سے دیکھ رہا تھا ۔مجیب الرحمن شامی ایک اور رنگ کی عینک سے دیکھ رہے تھے ۔یقیناً اگر سہیل وڑائچ اور حفیظ اللہ نیازی آتے تو وہ کسی اور عینک سے دیکھتے ۔ طبیعت کی ناسازی کے سبب دونوں تشریف نہیں لا سکے تھے ۔ارشاد عارف اور حبیب اکرم بھی تھے ۔ان کی اپنی عینکیں ہیں ۔منصور علی خان سمیت سوشل میڈیا کی بے شمار عینکیں بھی وہاں موجود تھیں ۔ملک احمد خان بھچر نے اپنی تقریر میں بارہا اس امر پر زور دیا کہ پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے کئی منصوبوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر عوام کے سامنے ایک نیا چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر "کسان کارڈ" کے حوالے سے ان کا مؤقف نہایت دوٹوک تھا۔ یہ وہ اسکیم تھی جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے بڑی محنت سے ترتیب دیا تھا، کسانوں کے حالات کو بہتر بنانے اور ان کے لیے سہولیات کی راہ ہموار کرنے کے لیے۔ مگر جب اقتدار کا تاج نون لیگ کے سر سجا، تو اس کارڈ پر بھی نیا لیبل چسپاں کر دیا گیا، اور یہ ظاہر کیا گیاکہ یہ ان کا اپنا تصور ہے۔اپوزیشن لیڈر نے گندم کی درآمد پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ملک میں 2.2 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ چھوڑا تھا، جو ملکی ضروریات کے لیے کافی تھا، مگر اس کے باوجود حکومت نے درآمد کی راہ اپنائی،بے شک یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے کہ جب ملک کے اندر وافر مقدار میں گندم موجود تھی تو پھر اس درآمد کی منطق کیا تھی؟ ۔

جرنلسٹ کالونی فیز 2 کے معاملے پر بھی بھچر نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پر وجیکٹ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران منظور ہو چکا تھا اور سات سو کنال اراضی بھی اس مقصد کے لیے مختص کی جا چکی تھی۔ گویا حکومت محض پرانے چراغوں میں نئی روشنی بھر کر انہیں اپنے نام سے منسوب کر رہی ہے۔انہوں نےپنجاب ہتک عزت ایکٹ کو آزادیٔ اظہار پر قدغن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحافیوں اور عام شہریوں کی زبان بندی کی ایک کوشش ہے، تاکہ کوئی حکمرانوں پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے ۔ یہ جمہوری روایات کی روح کے خلاف ہے اور بنیادی انسانی حقوق پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔پریس کلبوں کی مالی معاونت پر بھی حکومتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے دور میں پہلے ہی خاطر خواہ گرانٹس دی جا چکی تھیں۔ لاہور پریس کلب کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس کی فنڈنگ 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 2 کروڑ روپے تک کر دی تھی۔ان کی تقریر میں ایک چیلنج بھی تھا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو کھلے عام مناظرے کی دعوت دی اور کہا کہ اگر حکومت واقعی اپنے دعووں پر اتنی ہی پُر اعتماد ہے تو وزیر اعلیٰ کو ان معاملات پر ان سے براہِ راست بحث کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی نے اس تقریب کے ذریعے حکومت کے اقدامات کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی کہ پنجاب حکومت کا یہ پہلاایک سال دراصل پی ٹی آئی کے منصوبوں کی نقالی کا ہی ایک سال ہے ۔وہ سمجھتے ہیں اب یہ جنگ صرف سیاسی ایوانوں تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ عوام کے شعور میں بھی اپنا راستہ بنائے گی۔ آخر فیصلہ عوام ہی کریں گے کہ کون سچ بول رہا ہے، اور کون صرف الفاظ کے محل تعمیر کر رہا ہے۔

دوسری طرف کاپوائنٹ آف ویو اس کے بالکل برعکس ہے ، حکومت پنجاب کے نزدیک یہ تقریب سوائے سیاسی اسکور بنانے کے اور کچھ نہیں تھی ۔پروجیکٹس کے حوالے سے ان کا نقطہِ نظر یہ ہے کہ جن پروجیکٹس کی تکمیل مریم نواز کریں گی وہ انہی کے نام سے زندہ رہیں گے ۔پھر موجودہ حکومت ماضی کے اچھے پروجیکٹس کوزیادہ بہتر بناکر ان کو عملی طور پر پورا کررہی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کوششوں سے یہ پروجیکٹس صرف خیال نہیں رہے بلکہ وجود میں آ چکے ہیں ۔ماضی میں ان کی حیثیت کسی خواب سے زیادہ کی نہیں تھی ۔یہ فیصلہ مستقبل کا کوئی صاف شفاف الیکشن کرے گا لوگ کس کی بات مان کررہے ہیں اورکس کی نہیں سن رہے ۔جہاں تک میری بات ہے تو میری اپنی عینک ہے اس کا اپنا رنگ ہے اور مسلسل اسی رنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہوں ۔

تازہ ترین