• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سر گنگا رام کے اس مکان پر حکومت کی طرف سے اور سرگنگا رام ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے دو نیلے رنگ کے بورڈز جن پر سفید رنگ میں تحریر لکھی ہوئی ہے آویزاں ہیں۔ اس مکان پر ایک اور بورڈ لگا ہوا ہے جس پر درج ہے مشتری ہوشیار باش پراپرٹی ہذا ( A1118) گنگا رام ہسپتال کے نام وقف ہے اور اس کا لین دین ممنوع ہےخلاف ورزی کرنے والا خود ذمہ دار ہوگا بہ حکم ایم ایس سرگنگا رام ہسپتال۔ سرگنگا رام کی اندرون لاہور سے یقیناً دلچسپی تھی انہوں نے اندرون لاہور وچھووالی میں سرگنگا رام فری ہسپتال صرف غریبوں کے لیے قائم کیا تھا۔ اس ہسپتال میں اس زمانے میں تیس مریضوں کی رہائش کے لیے فیملی انتظام تھا مستورات کے لیے علیحدہ انتظام تھا اس ہسپتال میں لندن اور ایڈنبرا کے دو ڈاکٹرز بھی بیٹھا کرتے۔ سر گنگا رام واقعی لاہور کے محسن تھے۔ آج کل ہم اس وچھو والی گلی میں اس ہسپتال کو تلاش کر رہے ہیں۔ سرگنگا رام فری ہاسپٹل وچھو والی لاہور کا اشتہار اخبارات میں شائع ہوتا تھا جس میں لکھا ہوتا تھا کہ زچہ خانہ میں تین عورتوں کیلئے قیام کا انتظام ہے۔ اسپتال میں آنکھ، کان، ناک اور حلق، امراض مثانہ و مخصوصہ کا علاج ہوتا تھا، گنپت رائے سیاسی معتمد (اعزازی) اس اسپتال میںتمام ڈاکٹرز اور عملہ بغیر تنخواہ کے کام کرتا تھا۔ سوچیں اس زمانے میں ڈاکٹرز اور اسپتال کا یہ عملہ کس حد تک خدا ترس اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھا، اور آج کوئی ڈاکٹر یا اسپتال کا عملہ اعزازی طور پر کام کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرگنگا رام ہسپتال کے کسی ایم ایس کو آج تک اس پراپرٹی کا علم نہیں۔ اب اس مکان میں ایک نان اور کلچہ فروخت کرنے والے کی دکان ہے۔ ایک کپڑے استری کرنے والے کی دکان بھی رہی ہے۔ باقی مکان سارا خالی پڑا ہے۔آخر حکومت اور سر گنگا رام ہسپتال کی انتظامیہ کس انتظار میں ہے کہ یہ تاریخی مکان جو کہ 1851یعنی 175 برس قدیم ہے خود بخود گر جائے اور پھر پلازہ مافیا اس پر قبضہ کر لے مکان اگرچہ خستہ حال میں ہے مگر آج بھی اس پر تھوڑے سے پیسے خرچ کر کے اس جگہ پر سر گنگا رام ہسپتال کی فری ڈسپنسری بنائی جاسکتی ہے اس طرح اس مکان کی حفاظت بھی رہے گی اور مینٹیننس بھی رہے گی۔ اس سڑک پر ملکہ ترنم نور جہاں کا ذاتی مکان ہے جس پر یہ بورڈ لگا ہوا ہے کہ’’ ملکہ ترنم نور جہاں اللہ وسائی 1926سے 2000تک‘‘ اس تحریر کا مطلب یہ ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں 1926 میں پیدا ہوئیں اور 2000میں انتقال ہوا۔ گلوکارہ و اداکارہ نور جہاں 1938 سے 1942 تک یہاں رہائش پذیر تھیں جبکہ وہ اس زمانے میں بمبئی وغیرہ میں بھی فلموں میں کام کر رہی تھیں۔ یہ مکان بھی بہت خوبصورت ہے اس کے نیلے، گولڈن اور دیگر رنگوں کے نقش و نگار دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔یہاں پر اب جوتوں کی دکانیں بن چکی ہیں اس مکان کو فرنٹ اور بیک دونوں طرف، سڑکیں لگتی ہیں۔ ہیرا منڈی یاشاہی محلہ ماضی کے مقابلے میں اب بہت بدل چکا ہے دوسرا فوڈ سٹریٹ کے آنے سے وہ روایتی شاہی محلہ جو ضیاء الحق کے دور سے پہلے کا تھا اب نہیںرہا سنہری مسجد سے لے کر ہیرا منڈی کی تمام پرانی گلیوں میں اب جوتیوں اور کھانے پینے کی دکانیں اور پلازے بن چکے ہیں۔ یہیں پر پاکستان ٹاکیز/ رائل ٹاکیز/ عزیز تھیٹر برصغیر کا قدیم ترین اور لاہور کا سینما گھر بھی ہے جہاں پر سو برس تک فلمیںلگتی رہیں بر صغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آرا 1931 میں یہاں پر لگی تھی۔ آج یہ سینما بند ہو چکا ہے اور ایک بھوت بنگلہ بن چکا ہے حالانکہ اس تاریخی سینما کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے اس کے دو بھائی مالک تھے ان کی وفات کے بعد اب اس سینما کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہیرا منڈی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور تھیٹر کوبڑے نامور اداکار و اداکارائیں فنکار، موسیقار میوزک ڈائریکٹر، ستار نواز، سارنگی نواز، طبلہ نواز، پیانو نواز، کلارنٹ نواز، نے نواز اور سرود نواز دیئے۔ آج بھی ہیرا منڈی میں طبلے، ہارمونیم اور دیگر موسیقی کے آلات بنانے کی چند ایک دکانیں رہ گئی ہیں کبھی اس بازار میں بے شمار دکانیں، آلات موسیقی بنانے کی موجود تھیں۔ کبھی لاہور میں فن موسیقی سے وابستہ کئی افراد کا تعلق ہیرا منڈی سے تھا۔ سکھوں کے دور حکومت میں لاہور کی ہیرا منڈی /شاہی محلہ میں طوائفوں کی تعداد برصغیر کے تمام شہروں سے زیادہ تھی۔ بردہ فروش کشمیر اور پہاڑی علاقوں سے خوبصورت لڑکیاں اغوا کر کے یا پھر قیمت ادا کر کے کسبیوں کے پاس لے آتے اور کسبی ان کو ناچ گانا سکھاتی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے زمانے میں دو طوائفوں پر بری طرح فریفتہ ہوا تھا ۔مورا ںطوائف اور گل بیگم۔ موراںنے لاہور میں ایک مسجد بنوائی تھی جس پر ایک مدت تک مسجد موراں طوائف لکھا رہا پھر لوگوں نے طوائف کا لفظ ختم کر کے صرف مسجد مائی مورا ںوغیرہ لکھ دیا تھا ۔ ہم نے گورنمنٹ کالج لاہور کے حوالے سے جس حویلی دھیان سنگھ کا ذکر کیا ہے یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لاہور کا پہلا چرچ اس تاریخی عمارت میں قائم ہوا تھا۔ یا آپ یہ کہہ لیں کہ شاہی قلعہ میں عیسائی فوجیوں کی عبادت کے لیے سرکاری عبادت خانہ بھی دربار دھیان سنگھ والی عمارت میں قائم ہوا تھا۔یہ عبادت خانہ عیسائیوں کے کس فرقے کے لیے قائم ہوا تھا اس کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کا یہ عبادت خانہ تھا۔ اس حویلی میں 40 بینچ،3 پنکھے ایک چوکی رل کے یہ سب کچھ گیریژن کے انجینئرز نے فراہم کیے تھے۔ ویسے تو ہیرا منڈی میں ایک ڈیڑھ سو برس قدیم چرچ موجود ہے مگر اب وہ اصل شکل و صورت میں نہیں۔ کسی نہایت ہی عقلمند نے اس قدیم چرچ کی مرمت کرتے وقت اس کی اصل شکل و صورت بالکل ختم کر دی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین