• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈبلیو ٹی او میں اوسط ٹیرف 60.8، پاکستان کا 98.6، امریکا

اسلام آباد( مہتاب حیدر) امریکا نے دنیا کے 180 سے زائد ممالک بشمول پاکستان پر غیرمعمولی جوابی محصولات (reciprocal tariffs) عائد کرنے کی وجوہات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مختلف ٹیرف اور نان-ٹیرف رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے جو پاکستان کے میڈ-اپس (Made-ups) پر محصولات کے نفاذ کا باعث بنیں رپورٹ میں پیکا ایکٹ اورانٹرنیٹ بندش پربھی سخت تنقید کی گئی ہے۔امریکی صدر کی تجارتی معاہدہ جاتی پالیسی سے متعلق رپورٹ "2025 نیشنل ٹریڈ ایسٹی میٹس رپورٹ آن فارن ٹریڈ بیریئرز" کے پاکستان سے متعلق باب میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان نے جون 2003میں ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فریم ورک ایگریمنٹ (TIFA) پر دستخط کیے تھے، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق امور پر بات چیت کا بنیادی ذریعہ ہے۔2023 کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا اوسط ایم ایف این (Most-Favored-Nation) ٹیرف ریٹ 10.3 فیصد تھا۔ زرعی مصنوعات کے لیے یہ شرح 13.0 فیصد جبکہ غیر زرعی مصنوعات کے لیے 9.9 فیصد رہی۔ پاکستان نے عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں اپنی 98.6 فیصد ٹیرف لائنز کو باؤنڈ کر رکھا ہے، جہاں اوسط باؤنڈ ٹیرف ریٹ 60.8 فیصد ہے۔ زرعی مصنوعات کے لیے یہ شرح 96.2 فیصد جبکہ غیر زرعی مصنوعات کے لیے 55.2 فیصد ہے۔اگرچہ 2013 سے لاگو ٹیرف ریٹس میں کمی آئی ہے، لیکن امریکی کمپنیوں نے شکایت کی ہے کہ پاکستان اب بھی گاڑیوں اور تیار شدہ مصنوعات پر بلند ٹیرف اور بعض اوقات اضافی ڈیوٹیز عائد کرتا ہے۔اس کے علاوہ، پاکستان مختلف سیکٹرز اور مصنوعات پر SROs (Statutory Regulatory Orders) کے ذریعے مخصوص رعایتیں اور تحفظ فراہم کرتا ہے، جنہیں اکثر مشاورت کے بغیر نافذ کر دیا جاتا ہے، اور درآمدکنندگان کو ان پر عمل درآمد کے لیے وقت نہیں دیا جاتا۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے تحت پاکستان نے SROs کو صرف ایمرجنسی کی صورت تک محدود رکھنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ان کے خاتمے کے لیے کوئی ٹائم لائن فراہم نہیں کی گئی۔نان ٹیرف رکاوٹوں کے حوالےسے بتایا گیا ہےکہ پاکستان بعض اشیاء کی درآمد صرف پبلک سیکٹر یا صنعتی صارفین کو کرنے کی اجازت دیتا ہے، جیسے کہ کیڑے مار ادویات کی تیاری کے لیے درکار اجزا۔ کچھ درآمدات کے لیے وفاقی وزارتوں جیسے وزارت موسمیاتی تبدیلی، داخلہ، اور صحت کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔کچھ اشیاء جیسے فوڈ کلرز، کچرا، پلاسٹک اسکریپ وغیرہ کی درآمد کے لیے برآمد کنندہ ملک سے سرٹیفیکیٹ یا پری شپمنٹ انسپیکشن کمپنی کی تصدیق ضروری ہے۔
اہم خبریں سے مزید