ڈاکٹر نعمان نعیم
دنیا کے تمام ادیان و مذاہب میں دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام ایک مکمل معاشرتی نظام اور ابدی ضابطۂ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نےآسمان و زمین کی تخلیق کے بعد روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا،ان کے آپس میں رشتے ناطے قائم کیے، باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں، تعارف کے لیے خاندانوں اور معاشروں کا سلسلہ جاری کیا، حقوق وفرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں، انسان بہت سی سماجی اقدار وروایات کا پابند بھی ہے اور اپنی نجی زندگی میں بہت حد تک آزاد بھی، یہ دونوں چیزیں توازن کے ساتھ ہوں تو گھر اور معاشرہ جنت نظیر بن جاتاہے اور توازن بگڑ جائے تو وہی گھر اور سماج جہنم کا نمونہ بن جاتاہے۔ انسان کے فطری مزاج اور طبقاتی اور خاندانی رنگا رنگی کے راز کو قرآن کریم نے مختصر اور بلیغ انداز میں اس طرح بیان کیاہے:’’ ہم نے تمہارے اندر مختلف جماعتیں اور خاندان بنائے، تاکہ تم باہم پہچانے جاؤ‘‘۔(سورۃ الحجرات)
یہ طبقاتی فرق انسان کے لیے ایک امتحان ہے کہ اس فرق کا استعمال بندہ کس طور پر کرتا ہے؟ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے: ( ترجمہ) ’’اللہ ہی نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا اور باہم فرق مراتب رکھا، تاکہ تمہیں عطا کردہ چیز کے بارے میں آزمائے، بے شک، تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ یقیناً بخشنے والا اور مہربان بھی ہے‘‘۔
اسی لیے شریعت مطہرہ نے اپنے تمام قانونی احکام اور اخلاقی ہدایات میں اس فطری تنوع کا لحاظ رکھا ہے، زندگی کا کوئی مرحلہ ہو اسلام نے اپنے کسی بھی حکم میں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس نے کسی فریق یا زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیا ہو، یا کسی کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو، اسلامی قانون سراپا عدل وانصاف پر مبنی ہے،اسی بنیاد پر یہ دین قیم اور دین فطرت ہے، اسلام کے نزدیک عدل ہی تقویٰ کا معیار ہے۔ قرآن کی ہدایت ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’انصاف کرو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے‘‘۔(سورۃ المائدہ)
ہم مثال کے طور پر اسلام کی چند ان ہدایات کا تذکرہ کرتے ہیں،جن کا تعلق دو مختلف المراتب فریقین سے ہے اور جن سے انسان کو روز وشب دو چار ہونا پڑتا ہے۔ والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں، مگر اسلام نے دونوں کے مراتب کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے قانونی ہدایات دی ہیں، ایک طرف والدین کا اتنا عظیم حق بتایا گیا کہ ان کے سامنے اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے:’’ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ جھڑکو،ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔
احادیث میں والدین کے حق کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی مقدم بتایا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا، وقت پر نماز پڑھنا، میں نے عرض کیا، اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل؟ آپﷺ نے فرمایا، جہاد فی سبیل اللہ۔
دوسری طرف والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی اور انسان پر اولاد کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمے داری ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں اللہ کے دربار میں انہیں جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا،ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ’’مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے،اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
اولاد کو انسان کی سب سے بڑی پونجی اور صدقہ جاریہ قرار دیاگیا۔ ارشاد نبویؐ ہے: جب انسان مرجاتاہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔صدقۂ جاریہ۔ ایسا علم جس سے بعد میں بھی نفع اٹھایا جاسکے۔نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
میاں اور بیوی گھریلو زندگی کے بڑے ستون ہیں، ازدواجی زندگی میں دونوں کو الگ الگ ہدایات دی گئیں، شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گونہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملے میں تم اسی طرح جواب دہ ہو جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں: (ترجمہ) عورتوں کا مردوں پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کا ان پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
جو لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے طور پر رہتے ہیں، انہیں معاشرے کا اچھا فرد قرار دیاگیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ عورتوں کی دل جوئی کا اس قدر خیال رکھا گیا کہ ان کی جبری اصلاح سے بھی روکا گیا۔
ارشاد فرمایاگیا: بے شک، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور وہ کبھی تمہارے ایک راستے پر سیدھی نہیں چل سکتی،پس اس سے جو نفع اٹھاسکتے ہو، اٹھالو، اس میں کجی ہے، اگر تم اسے ٹھیک کرنے کے درپے رہے تو اسے توڑ ڈالو گے، توڑنے کا مطلب طلاق ہے۔ ایک حدیث میں ہے: کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اس لیے کہ اگر ایک بات ناپسند ہوگی تو دوسری کوئی بات ضرور پسند آئے گی۔
دوسری طرف عورت کو تنبیہ کی گئی کہ اگرمیں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ حدیث میں ہے:کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر(نفل) روزہ رکھے یاکسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے۔ شوہر کی رضا مندی کو عورت کے لیے جنت میں داخلے کا وسیلہ قرار دیا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
ایک طرف امراء وحکام کو عدل وانصاف،ادائے امانت، رحم وکرم، خوف خدا اور قانون کی بالادستی کی تاکید کی گئی۔( ترجمہ) رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے،اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ (ترجمہ) انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (ترجمہ) امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جو امام وحاکم ضرورت مندوں پراپنا دروازہ بند کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کے وقت آسمان کے دروازے بند کرلے گا۔ (ترجمہ) جو شخص مسلمانوں کے معاملے کا ذمے دار ہونے کے بعد ان کی ضرورت کے وقت سامنے نہ آئے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ضرورت وحاجت کے وقت اسے نظر انداز فرمائے گا۔ ( ترجمہ) وہ حاکم جو لوگوں پر مقرر ہے، وہ نگراں کار ہے، اس سے اس کی زیرنگرانی افراد کے متعلق بازپرس ہوگی۔(ترجمہ) جس بندے کو اللہ کسی رعیت کا نگراں بنائے اور وہ اس کی خیرخواہی نہ کرے تو وہ جنت کی بوبھی نہیں پائے گا۔
دوسری جانب عوام کو اپنے امیر کی ہر جائز امر میں اطاعت کی تلقین کی گئی اور اسے اللہ اور رسول ﷺکی اطاعت کا حصہ قرار دیا گیا۔ قرآن کریم میں ہے: اے ایمان والو، اللہ اوراس کے رسولﷺ اور اپنے ذمے داروں کی اطاعت کرو۔
ایک طرف مال والوں کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی اور صدقہ وخیرات کے اتنے فضائل بیان کیے گئے کہ بعض صحابہؓ نے اپنا سارا مال ہی صدقہ کردینے کی ٹھان لی تھی۔ پڑوسیوں کا اتنا حق بتایا گیا کہ گھر کے سالن میں بھی انہیں شریک کیا گیا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سالن پکاؤ تو شوربہ بڑھا دو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو، لیکن دوسری طرف سوال کرنے اور کسی سے مدد مانگنے کو انسانی غیرت کے خلاف کہا گیا اور اسے چہرے پر گُدائی کے بدنما داغ سے تعبیر کیاگیا۔ ( صحیح بخاری)(ترجمہ) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
ایک طرف انسان کو مواقع تہمت سے بچنے کا حکم دیا گیا، تاکہ کسی کو بدگمانی یا قیاس آرائی کا موقع نہ ملے تودوسری طرف اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیاگیا اور بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا گیا اور کسی کی ٹوہ میں رہنے سے منع کیاگیا، بلکہ بے اختیار اگر کسی مسلمان کے کسی عیب پر نگاہ بھی پڑجائے تو اسے ہرممکن طور پر مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی۔ (ترجمہ) ایمان والو، اکثر گمانوں سے بچو،اس لیے کہ بہت سے گمان گناہ ہوتے ہیں۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کا کوئی عیب دیکھا، پھر اسے چھپالیا تو اس نے گویا کسی دفن شدہ لڑکی کو زندہ کردیا۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں، جن میں شریعت اسلامیہ نے اعلیٰ اخلاقی و معاشرتی اقدارکے حوالے سے تعلیمات دے کر لوگوں کے حقوق، ان کی شناخت اور ترجیحات کا تحفظ کیا ہے، تاکہ نظام عالم قائم رہے، معاشرتی اقدار و روایات جاری رہیں اور ہر شخص کی ذاتیات بھی محفوظ رہے، اسلام کسی بھی ایسے فکر وعمل کی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی فرد یا اجتماع کا مفاد متاثر ہوتا ہو، خاندانی نظام کے مسائل کو سمجھنے کے لیے اسلام کے اس مزاج کو پیش نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔