• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی استحکام کے باوجود ملکی سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے معاملات بھی پتلے ہوتے جارہے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تودوسری طرف ٹرمپ نےبھارت اور افغانستان سے زیادہ پاکستان پر ٹیرف لگا کر ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی اندرونی جنگ نے عید کے ایام میں بھی میڈیا پر خصوصی رنگ بکھیرے رکھے۔ اندرونی کہانی کچھ یوں ہے کہ سلمان اکرم راجہ اپنی نپی تلی لائن لینتھ پر باؤنسر پر پھینکے جارہے ہیں تو علیمہ باجی ملاقاتیوں کی فہرست سے خاندان کے اخراج پر واویلا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ علی امین گنڈا پور، بیرسٹر سیف کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد یہ خبرخصوصی طور پر لیک کی گئی کہ بانی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مہم پر سیزفائر کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے شرط یہ رکھی ہے کہ مذاکراتی عمل کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے۔ اس اہم ملاقات سے قبل اعظم سواتی اڈیالہ جیل سے یہ خبر لائے تھے کہ بانی پی ٹی آئی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کی کرپشن بارے شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور انہیں سپیکر شپ کے عہدے سے ہٹانے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔ علی امین گنڈا پور سے ملاقات کے دوران یقیناً یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا۔ اسی لئے تو انہیں معاملے کو دیکھنے کا کہا گیا ہے۔ اعظم سواتی کے متنازعہ بیان پر شدید رد عمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر نے تمام پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دے کر پارٹی کے اندر ایک نیا طوفان برپا کر دیا اور سابق صوبائی وزیر و پی ٹی آئی رہنما تیمور جھگڑا نے کرپشن الزامات کی تحقیقات پر جو پنڈورا باکس کھولا ہے وہ کسی نہ کسی بڑے صوبائی عہدے دار کو بھی لے ڈوبے گا۔ سلمان اکرم راجہ، اعظم سواتی سے پہلے بابر اعوان کی ملاقات پر اپنا شدید ردعمل دے چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جہلم کے چودھری برادران، بابر اعوان، اعظم سواتی ”اُن“ کے مہرے ہیں۔ جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر نیم آمادگی کی بات ہے تو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ گنڈا پور کو ایسا کوئی ٹاسک نہیں دیاگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی مذاکرات پر آمادہ کرنے نہیں گیا تھا صرف صوبائی حکومت، پارٹی امور پر گفتگو ہوئی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حالات جس ڈگر پر چل نکلے ہیں اس کے منفی و مثبت اثرات کیا ہوں گے؟ کیا بانی پی ٹی آئی واقعی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، صورت حال کچھ یوں ہے کہ لڑکا تو تیار ہے لیکن لڑکی والے راضی نہیں ہو رہے۔ بانی پی ٹی آئی کی بے بسی پر ہر کوئی انہیں جلد رہائی کے سبز باغ دکھا کر چلتا بنتا ہے۔ پارٹی میں ٹکراؤ کی یہ کیفیت خود ان پر بھاری پڑتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت ایک ایسا موقع تھا جو انہوں نے گنوادیا ہے۔ اب وہ اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے۔ اُلٹا سینئر قیادت اس بحث میں اُلجھ گئی ہے کہ فیصلہ غلط تھا یا صحیح؟ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر جیسے مدبر شخص کو کھڈے لائن لگانے کے بعد پی ٹی آئی میں ایک نیا قبضہ گروپ تشکیل پا رہا ہے اور حالیہ ملاقاتیں بانی پی ٹی آئی کے گلے پڑتی جا رہی ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں جب گنڈا پور ان کے زیر عتاب تھے انہیں پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کر کارکنوں کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کا اعتماد کھو چکے ہیں جبکہ بشریٰ بی بی اور گنڈا پور بارے عام رائے یہ ہے کہ انکے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط تھے اور ہیں۔ بانی کو اپنی اہلیہ کے رابطوں پر اعتراض نہیں لیکن وہ گنڈا پور پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اڈیالہ جیل میں ہونے والی حالیہ بیٹھکوں کی اندرونی کہانی سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اجازت سے جو اندر جاتا ہے باہر آکر ایک نئی کہانی سنا کر بانی پی ٹی آئی کی بیڑی میں وٹے ڈال کر چلتا بنتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی سمجھ میں نہ آنے والی سیاسی حکمت عملی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ جیل سے جلد رہائی کی کوششوں کے لئے دن رات ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سیاسی نجومی سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ آخر مذاکراتی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ عید کے ایام میں ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول گھمایا تو ایک نجی چینل پر تین نجومیوں میں تکرار چل رہی تھی کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ ایک کہہ رہا تھا الف، م، ش، ع گویا کہ پوری الف، ب، ج، د، دوسرا کہہ رہا تھا آپ صاف کیوں نہیں کہتے۔ ”م“ سے مریم، محسن نقوی، ”ع“ یعنی میں عرفان نہیں کوئی اور۔ ”الف“ سے صرف اللہ ہی دلوں کے بھید جانتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟ بحث میں شریک تیسرے نجومی نے پکے منہ سے یہ دعویٰ کیا کہ کسی کتاب میں نوٹ کرکے رکھ لیں کہ بانی پی ٹی آئی بہت جلد پریس کانفرنس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست کو خیر باد کہنے کا اعلان کرکے آئندہ زندگی صرف اللہ اللہ ہی کریں گے۔ ان تینوں نجومیوں کی تکرار سے میرا اعلان لاتعلقی ہی سمجھئے ورنہ بات کہاں سے کہاں نکل جائے گی۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ بھائی لوگو ! عوام بجلی بلوں پر بڑے ریلیف کے باوجود اس سیاسی دھینگا مشتی سے بے زار ہو چکے ہیں، حکومتی سیاسی کشتی پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کوئی نیچے اترنے کو تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ تو ایک صفحے پر کھڑی تیر رہی ہے مدو جزر میں نئی نہروں کی تیز لہریں شہباز حکومت سے ٹکرا رہی ہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو ایسا دھوبی پٹکہ مارے کہ جان چھڑانا مشکل ہو جائے۔

تازہ ترین