• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ججز کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

اسلام آباد ( رپورٹ:،رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سول ملازمین کی سنیارٹی رولز ججز پر اپلائی نہیں ہونگے، جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جب ججزکی آسامیاں خالی تھیں توٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئےجج تعینات کیوں نہیں کیےگئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے ملک کی دیگر تین ہائیکورٹوں کے ججوں کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلوں اور انہی کی بنیاد پر تمام ججوں کی سینیارٹی مقرر ہونے کے حوالے سے دائر مقدمہ کی سماعت کے دوران جواب گزار ججوں(جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف)، جوڈیشل کمیشن، تمام ہائیکورٹوں کے رجسٹرار حضرات، اٹارنی جنرل پاکستان، تمام صوبائی اور اسلام آباد کے چیف لاء افسران (ایڈوکیٹ جنرل) کونوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت نے قراردیاہے کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ آئندہ سماعت پر سنا جائیگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میںجسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بینچ نے سوموار کے روز آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو درخواست گزار ججوں کے وکلاء منیر اے ملک اور صلاح الدین سمیت دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء بھی روسٹرم پر آگئے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اس مقدمہ میں دو اہم نقاط ہیں، اول یہ ہے کہ دوسری ہائیکورٹوں سے ججوں کا اسلام آباد ہائی کورٹ میںتبادلہ ہواہے، دوئم یہ ہے کہ اب ججوں کی سنیارٹی کیا ہو گی؟ انہوںنے کہاکہ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سنیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کیا تبادلہ ہونے والے ججوں کی سنیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی؟یا نئی ہائیکورٹ سے شروع ہو گی؟انہوںنے منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے؟ یا سنیارٹی میں تبدیلی پر؟تو انہوںنے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے،جس پر فاضل جج نے کہاکہ ان کے تبادلے آئین کے آرٹیکل200کے تحت ہوئے ہیں، انہوںنے فاضل وکیل کو وہ شق پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوںنے باآواز بلند آرٹیکل دو سو پڑھ کرسنایا، فاضل جج نے کہاکہ آئین میں لکھا ہے کہ جس جج کا بھی تبادلہ کیا جانا مقصود ہو؟ اس کی رضامندی، دونوں متعلقہ ہائیکورٹوں کے چیف جسٹسز کی رضامندی اور چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی لازمی ہے،جس پر منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ کے ایک جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پر ہی دوسری ہائیکورٹ میں ہو سکتا ہے،اور یہی ہمارا اعتراض ہے، جس پرجسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اگر ایسا ہوتا تو آئین میں بھی لکھا جاتالیکن وہاں پر توکسی عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں ہے، انہوںنے کہاکہ آئین میں صرف اتنا لکھا ہوا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کرسکتے ہیں،جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کے پاس ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں ہے، انہوںنے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 200 کو ججوں کی تقرری کے آرٹیکل 175اے کی ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، آئین کے مطابق تمام ججوں کیساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے،جس پر فاضل جج نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس ججوں کے تبادلوں کا اختیار ہے، تاہم اگرججوں کے تبادلوں میں کسی قسم کی کوئی اضافی مراعات ہوتیں تو پھر اعتراض بنتا تھا،جبکہ صدر ممملکت اگر خود سے ہی ججوں کے تبادلے کر دیں تو بھی سوالات اٹھیں گے۔

اہم خبریں سے مزید