بھیڑ چال جسے انگریزی میں ’ہرڈ سائیکالوجی‘کہا جاتا ہے ،اندھی تقلید کا مرض ہے ۔یوں تو اس حوالے سے زیب داستان کیلئے ایک غیر مصدقہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ چند برس قبل ترکی میں ایک بھیڑ نے پہاڑ سے نیچے گہری کھائی میں چھلانگ لگادی تو اس کے پیچھے سینکڑوں بھیڑوں نے کود کر جان دیدی مگر سب سے پہلے برطانوی سرجن Wilfred Trotterنے اپنی کتاب ’’ Instincts of the Herd in Peace and War‘‘میں اس اصطلاح کا ذکر کیا۔بالعموم اس طرح کا رویہ ان جانوروں کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے جو جھنڈ ،ریوڑ،غول ،ڈار اور جتھے کی شکل میں حرکت کرتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔شمالی امریکہ میں سفید چوہوں کی ایک قسم جو لیمنگ کہلاتی ہے ،ان کے ہاں اجتماعی خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے اور بھیڑ چال کے پیش نظر یہ پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ نجانے کب انسانوں نے ریوڑ کی یہ نفسیات مستعار لی لیکن پاکستان میں بھیڑ چال بہت مقبول ہے ۔ایک زمانے میں کمپیوٹر کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر گلی محلے میں مراکز کھل گئے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میںنجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوجانے کے بعد صحافت کا بازار گرم ہوا تو تمام جامعات میں شعبہ ابلاغیات خودرو جھاڑیوں کی طرح اُگنا شروع ہوگئے۔ڈیجیٹل میڈیا کا دور آیا تو سب نے یوٹیوب چینل کھول لئے ۔اور یہ بھیڑ چال محض یہیں تک محدود نہیں ۔آپ نے دیکھا ہوگا کسی ٹی وی چینل پر بچو ں کے اغوا کی خبر چل جائے تو چند ہفتوں تک میڈیا ایسی ہی خبریں ڈھونڈ کر ایسا ماحول بنا دیتا ہے جیسے اچانک اس نوعیت کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کوئی نوسرباز کہہ دے کہ تربوز کو انجکشن لگا کر سرخ کیا جاتا ہے تو لوگ تحقیق کئے بغیر بائیکاٹ کی مہم چلا دیتے ہیں۔لوگ ایسی باتوں کو جانچنے کے بجائے شیئر کرنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بائیکاٹ کا ماحول بن جاتا ہے ۔اسی بھیڑ چال کے تحت آج کل پاکستان میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ عروج پر ہے۔شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ وہی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جن پر پاکستان میں حملے ہو رہے ہیں،ان کی شاخیں فلسطینی علاقوں میں کام کررہی ہیں ۔آپ ابھی گوگل میں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کا نام لکھ کر سرچ کریں تو پتہ چلے گا مغربی کنارے کے شہر Ramallah میں اس کی شاخ کھلی ہے اور فلسطینی نہ صرف برگر کھا رہے ہیں بلکہ ان کالے مشروبات سے بھی جی بہلا رہے ہیں جنہیں پاکستان میں حرام قرار دیا جاچکا ہے۔اسی طرح Bethlehem سمیت دیگر فلسطینی شہروں میں بھی اس فاسٹ فوڈ چین پر فرائیڈ چکن سمیت سب کچھ دستیاب ہے۔دراصل یہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ملکیت نہیں بلکہ سب سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ کاروبار کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوتا۔ان بین الاقوامی کمپنیوں نے یہاں پاکستان میں اپنی شاخ کھولنے کی اجازت دیتے وقت یکمشت رقم وصول کرلی اور اب محض معمولی شرح سے منافع میں حصہ وصول کرتی ہیں یعنی آپ بائیکاٹ کے ذریعے پاکستانی سرمایہ کاروں اور ان کے ہاں کام کرنے والے ملازمین کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔اس ضمن میں کسی نے تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی کہ جن مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے کیا وہ واقعی اسرائیلی برانڈز ہیں ؟چلیں بالفرض محال یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ان بڑی کمپنیوں کے مالکان یہودی ہیں تو کیا ان کے ہاں ہماری طرح فرقہ بندی نہیں ہے ؟کٹر مذہبی یہودی جو صہیونی کہلاتے ہیں وہ ہمارے تکفیریوں کی طرح اسرائیلی حکومت کو نہیں مانتے ۔بے شمار یہودی فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تو کیا بائیکاٹ سے پہلے ان تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا؟دراصل اس بائیکاٹ کے پیچھے وہ ساہوکار ہیں جوکھلی مارکیٹ میں تو ان برانڈز کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر اب بائیکاٹ کی اس مہم کے ذریعے میدان خالی کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ جذباتی استحصال کے ذریعے لوگوں کو لکڑی کا برادہ ملی لکڑی ،جھاڑو سے تیار کیا گیا زیرہ ،کیمیکل سے بنایا گیا دودھ اور دیگر جعلی ،ناقص اور غیر معیاری مصنوعات استعمال کرنے پر قائل کیا جائے۔طرفہ تماشہ دیکھیں کہ آپ جس موبائل فون ،ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ پر جس سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں ،یہ سب اشیاء کافروں کی ہی بنائی ہوئی ہیں۔اگر آپ بھیڑ چال کے ذریعے عقل کے بائیکاٹ پر بضد ہیں تو جو چاہے آپ کو حسن کرشمہ ساز کرے ورنہ اقبال کی سن لیں جس نے کہا تھا کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوا کرتی ہے ۔قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری کی باتوں پر غور کرلیں۔ان کی نظم آزادی کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں :
انساں بھی کچھ شیر ہیں باقی بھیڑوںکی آبادی ہے
بھیڑیں سب پابند ہیں لیکن شیروں کو آزادی ہے
شیر کے آگے بھیڑیں کیا اک من بھاتا کھاجا
باقی ساری دنیا پر جا شیر اکیلا راجا ہے
بھیڑیں لا تعداد ہیں لیکن سب کو جان کے لالے ہیں
ان کو یہ تعلیم ملی ہے بھیڑئیے طاقت والے ہیں
ماس بھی کھائیں، کھال بھی نوچیں ہر دم لا گو جانوں کے
بھیڑیں کاٹیں دورِ غلامی بل پر گلّہ بانوں کے
بھیڑ یوں سےگویا قائم امن ہے اس آبادی کا
بھیڑیں جب تک شیر نہ بن لیں نام نہ لیں آزادی کا
(نوٹ:یہ کالم نگار کی ذاتی رائے ہے اگر کسی کواس سے اختلاف ہو تو اظہار رائے کیلئے ہمارے صفحات حاضر ہیں)