کرپشن ویسے تو کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے تقریباً ہر ملک کا مسئلہ ہے مگر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں۔بدقسمتی سےان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اس سال فروری میں جو اعدادوشمار سامنے آئے،ان کے مطابق دنیا کے180ممالک میں پاکستان کا اس اعتبار سے135واں نمبر ہے۔نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو(نیب)اور دوسرے متعلقہ اداروں کے ذریعے حکومت کرپشن اور مالی بدعنوانی پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات کررہی ہے،ان کے نتیجے میں دودرجے بہتری آئی ہے۔نیب کے قیام کا اصل مقصد ملک میں کرپشن کی تمام صورتوں کا خاتمہ کرنا تھا مگر قانون بنانے والوں کے ذہنوں میں اس کے ذریعے اپنے مخالف سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑہی تھی ،جس پرکم وبیش آج بھی عمل ہورہا ہے جبکہ توجہ سرکاری محکموں میں ہونے والی انتظامی اور مالی بدعنوانیوں کے خاتمے پر ہونی چاہئے۔پی ڈی ایم کے دور حکومت میں نیب قوانین میں ترامیم کی گئیں ،تاکہ اس ادارے کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے۔لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس سے بہتری کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور ترمیمی ایکٹ2022-23ءکے باعث نیب کے کیسز بڑی تعداد میں متاثر ہوئے۔گزشتہ ایک سال میں کرپشن کی تحقیقات کیلئے 1146کیسوں کا ہدف مقرر کیا گیا تھا مگر اس سے کہیں کم یعنی صرف372کی تحقیقات ہوسکی۔اسی طرح گزشتہ مالی سال میں حکومتی اداروں کے بارے میں عوامی اور دیگر شکایات کے ازالے کیلئے انکوائریوں کا ہدف1479مقرر کیا گیاتاہم نیب1233پوری کرسکا۔نیب ذرائع کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر وائٹ کالر کرائمز پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور انہیں ثابت کرنے کیلئے متعدد محکموں کی مدد درکار ہوتی ہےاور اس کیلئے وقت بھی کافی چاہئے۔بیرون ملک کیلئے قانونی تعاون کی درخواستوں کے عمل میں بھی کافی وقت صرف ہوجاتا ہے جبکہ مختلف عدالتوں میں طویل قانونی عمل بھی سست روی کی بڑی وجہ ہے۔21-22-23کے نیب ترمیمی ایکٹ میں متعدد ترامیم کی گئی تھیں،ان کی رو سے50کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیس نیب کے دائرہ کار سے نکال دیے گئے۔اس کے علاوہ وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات،وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے،ترقیاتی منصوبوں یا اسکیموں میں بے قاعدگی اور ریگولیٹری ادارے کے فیصلے بھی نیب کے اختیار سے باہر کردیے گئے۔ملزموں کے خلاف تحقیقات کیلئے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد لینے کا نیب کا اختیار بھی ختم کردیا گیااور ریمانڈ کی مدت90سے کم کرکے30روز کردی گئی۔اس سے بھی نیب کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق نیب کی کارکردگی متاثر کن نہ ہونے کی کئی دوسری وجوہات بھی ہیں ،مگر سب سے بڑی وجہ پی ڈی ایم حکومت کی ترامیم ہیں۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سرکاری دفاتر میں سائلین کی فائلوں کو پہیہ لگانے کیلئے بیشتر صورتوں میں پیسہ چلتا ہے۔صاحب ثروت لوگ تو خود بااختیار اہلکاروں کی خدمت کے مواقع نکال لیتے ہیں ،مگر غریب اور بے وسیلہ سائلوں سے پیسہ بٹورنے کیلئے فرنٹ مین بھی موجود ہوتے ہیں ،جو اپنا حق خدمت جیب میں ڈالنے کے علاوہ بااختیار اہلکاروں کیلئے بھی نقدی جمع کرنے کے کام میں ماہر ہوتے ہیں۔ جو غریب آدمی ان کا مطالبہ پورا نہ کرسکے،اس کاکام فائلوں میں ہی دبا رہتا ہے۔اربوں کھربوں کے منصوبوں میں مالی بدعنوانیوں کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔نیب کے اختیارات محدود ہونے سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔حکومت کو اس صوتحال پر غور کرنا چاہئےاور کرپشن کے موثر تدارک کیلئے سخت گیر اقدامات کرنے چاہئیں۔تحقیقات کو شفاف بنانا چاہئے اور مجرموں کو قرار واقعی سزائیں ملنی چاہئیں۔