اسلام آباد ( مہتاب حیدر)آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے درآمدی ٹیرف میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے بڑے اثرات اردن او ر پاکستان پر ہوں گےاور اسکی وجہ امریکی مارکیٹ میں ان کا برآمدی شیئرہے۔آئی ایم ایف نے اپنے علاقائی اکنامک آئوٹ لک میں جی ڈی پی کی شرح کا تخمینہ کو 3.2 فیصد سے گرا کر2.6 فیصد کر دیا ہے۔ جبکہ آئندہ برس کیلئے جی ڈی پی کی شرح کا تخمینہ 3.6 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا جہاد الظور نے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان نے کلاں معاشی ( میکرواکنامک) استحکام کی بحالی کیلئے اہم پیشرفت کی ہے اور ا س کے اثرات جہاںترقیکی شرح میں نظر آرہے ہیں وہیں افراط زر کی شرح 12.6 سے گرکر6.5 فیصد کی سطح پر آنے سے بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ قرض کے معاملات بھی مستحکم ہورہے ہیں اور ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کو اپ گریڈ کررہی ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ تجارتی ٹینشن کے پاکستان پر نسبتاً زیادہ اثرات آئیں گےباقی علاقے کی نسبت لیکن میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان پراس کے اثرات کو ان اقدامات سے ختم کیاجاسکتا ہے جن سے پاکستان معیشت اپنے آپ کو دنیا میں ری پوزیشن کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پرپاکستانی معیشت تجارتی راستوںکی تبدیلی سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ امریکی ٹیرف کی وجہ سے موثر ٹیرف کی شرحیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں جو ایک صدی میں نہیں دیکھی گئیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور قفقاز اور سینٹرل ایشیا ریجن میں 2 اپریل سے 20 سے 40 فیصد کےدرمیان ٹیرفلگا دیے گیے ہیں ۔ الجزائر عراق، اردن، قزاقستان ،لیبیا۔ پاکستان ، شام اور تیونس جیسے ممالک جہاں بیس لائن ٹیرف 10 فیصد رکھا گیا ہے تاہم اس دوران ہوا یہ ہے کہ تیل براآمد کرنے والے ممالک پر ٹیرف کا استثنیٰ ہے اور اس سے ان کی امریکا کو برآمدات پر بہت ہی کم اثر پڑے گا۔ دیگر ممالک اور خطوں سے تقابل کرتے ہوئےانہوں نے بتایا کہ پاکستان اور اردن پر اثرات زیادہ ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کی کل برآمدات میں سے امریکا کو شیئر زیادہ ہے۔پاکستان کی ترقی کی شرح وسیع ترطور پر مالی سال 2025 کے دران غیر مبدل رہے گی اور اس سے 0.6 فیصد پرسنٹیج پوائنٹ کی اکتوبر سے نیچے کی جانب رخ ہوا کیونکہ 2025 کے پہلے نصف میں سرگرمی کمزور رہی ہے ۔مہنگائی 2025 کے بعد بھی کم ہوتی جائے گی اور یہ بھی ایک بین الاقوامی رحجان ہے۔ اس تنزل سے پاکستان اور مصر جیسے ممالک کو ایک پسندیدہ بنیادی فائدہ مل سکتا ہے جس میں خوراک کی قیمتوں پر کم دبائوشامل ہے۔ مالیاتی استحکام بھی بتدریج بہتر ہوتا رہے گا جس سے کم ہوتا ہوا عوامی قرض کی عکاسی ہوتی ہے۔پاکستان جیسے ممالک کیلئے قرض کی لاگت اونچی رہنے کی روقع ہے اور یہ کروناوبا سے پہلے کے اوسط سود کی شرح کے برابر رہنے کی توقع ہے۔