اسلام آباد( مہتاب حیدر)ایف بی آرکے اندرتبدیلیوں کے اس منصوبے پر عملدرآمد کے دوران کہ جس کابہت شوروغوغا سنتےتھے اور جس پر قومی خزانے کے اربوں روپے بھی خرچ ہوئے تھے، دیکھنے میں یہ ٓیا ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کی مشینری کی بدانتظامی کی شکایات جنوری سے اپریل کے صرف چارمہینوں میں بڑھ کر 550 فیصد ہوگئی ہیں۔ یہ بے پناہ اضافہ ایف بی آر کی مبینہ بدانتظامی سے متعلق شکایات پر مبنی ہے، جن میں اختیارات کا غلط استعمال، غیر قانونی نوٹسز، مناسب طریقہ کار کے بغیر اکاؤنٹس کی منسلکیاں، جعلی یا فلائنگ انوائسز، سیلز ٹیکس اکاؤنٹس کی ہیکنگ وغیرہ شامل ہیں۔وفاقی ٹیکس محتسب (FTO) کے پاس درج شکایات کی تعداد جنوری تا اپریل 2025 کے پہلے چار ماہ میں 13,000 تک پہنچ گئی، جو کہ گزشتہ سال 2024 کے اسی عرصے میں صرف 2000 شکایات تھیں۔ ماضی میں FTO کو سالانہ اوسطاً 2500 شکایات موصول ہوتی تھیں، جبکہ اس سال صرف چار ماہ میں 13,000 شکایات ایک تشویشناک اشارہ ہیں۔یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ 2024 کے پورے سال میں کل 13,500 شکایات درج ہوئیں، جبکہ 2025 کے ابتدائی چار ماہ میں ہی شکایات کی تعداد 13,000 سے تجاوز کر گئی۔ رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے اعلیٰ حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف بی آر کو مالی سال 2025 کے لیے 12,970 ارب روپے کا بلند ہدف دیا گیا تھا، جسے بعد میں آئی ایم ایف کی منظوری سے کم کرکے 12,332 ارب روپے کیا گیا، مگر یہ ہدف اب بھی انتہائی بلند ہے۔ اس وجہ سے ایف بی آر کی اعلیٰ انتظامیہ نے فیلڈ دفاتر پر ماہانہ اور سہ ماہی اہداف ہر صورت حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں فیلڈ افسران نے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ محصولات اکٹھے کیے جا سکیں۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت، ایف بی آر کو ٹیکس-ٹو-جی ڈی پی شرح 10.6 فیصد حاصل کرنے کے لیے سخت دباؤ کا سامنا ہے، جبکہ آمدنی پیدا کرنے والے شعبے خود سست روی کا شکار ہیں۔