• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بلاشبہ ماں، دُنیا کی شفیق ترین ہستی، ایک پُرسکون آغوش، تپتے صحرا میں ٹھنڈی پھوار، کڑی دُھوپ میں ابر کے ٹکڑے کی مانند ہے۔ یہ مقدّس رشتہ، اللہ ربّ العزّت کا وہ عطیہ ہے کہ جس کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ اولاد دُنیا سے اپنے جذبات و احساسات چُھپا سکتی ہے، لیکن ماں سے نہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے ماں کے خمیر میں اپنی رحمت، فضل وکرم، برکت اور عظمت کی آمیزش فرما کر ہی اُسے عرش سے فرش پر اُتارا، جب کہ اُس کے قدموں تلے جنّت رکھ کر اُسے دنیا کے اعلیٰ ترین منصب پر بھی فائز کردیا۔ ماں کی اولاد کے لیے کی جانے والی دُعائیں اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتا ہے کہ مائوں کی دُعاؤں ہی نے اولاد کو ولی اور بادشاہ تک بنایا۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کی ماں نے دُعا فرمائی ،تو وہ ولی اللہ بن گئے۔ 

ٹیپو سلطان شہید کی والدہ نے اُنہیں دُعا دی تھی کہ وہ ایسے سلطان بنیں کہ تاریخ میں اُن کا نام سُنہری حروف میں درج ہو اور دُنیا آج تک ٹیپو سلطان کو نہیں بُھولی۔ ماں کی دُعاؤں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مُجھے…ماں نے کیا ہوا ہے سُپردِ خُدا مُجھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ممتا کے جذبے سے سرشار، وفا کی پیکر اور انتہائی پُرخلوص دُعاؤں کے اس رُوپ کی خوبیاں بیان کرنا سمندر کو کُوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی کی باتوں میں محبّت، دل میں رحمت، ہاتھوں میں شفقت، قدموں میں جنّت اور آغوش میںبے پایاں سکون رکھاہے۔ افسوس کہ ہم تقریباً4سال قبل اس پُرسکون آغوش اور رحمتوں کے آنچل سے محروم ہوگئے۔

ماں کا دُنیا سے رخصت ہوجانا کسی سانحے، قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ اس عظیم نعمت سے محرومی کا یہ عرصہ کیسے گزرا، بیان کرنا مشکل ہے۔ سچ کہوں تو کوئی دِن ایسا نہیں گزرتا کہ جب ہمیں اُن کی کمی محسوس نہ ہوتی ہو۔ خوشی و غم کے سب لمحات میں اُن کی یادشدت سے تڑپاتی ہے۔ ہر کام اُن کے بغیر ادھورا، مشکل لگتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اولاد کی پرورش کی خاطر بےحساب تکلیفیں اُٹھانے، سختیاں جھیلنے والی ماں دُنیا سے رخصت ہو جائے، تو لگتا ہےکہ ؎ کڑے سفر کا تھکا مسافر …تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے… خُود اپنی تو آنکھیں بند کرلیں… ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے۔ (بلقیس متین، کراچی)

(محمد مشتاق احمد سیال، ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج، بہاول پور)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘

٭بے حیائی کا خاتمہ (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ، لاہور) ٭زندہ، مگر مَرا ہوا آدمی (شین فاطمہ، کورنگی، کراچی) ٭نام خود تجویز کریں (سعیدہ جاوید، امیر روڈ، بلال گنج، لاہور)٭میری دُکھ بھری کہانی (امتیاز وارث ملک المعروف ٹیپو سلطان، رنگ روڈ، راول پنڈی)۔٭ سبق آموز، دل چسپ آپ بیتی (اکبر حیات اعوان، اسلام آباد)٭مکافاتِ عمل (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی غربی، بہاول پور)٭اُن دنوں مجھے گُردے کی سخت شکایت تھی (خالد سلیم، پی ای سی ایچ ایس، کراچی)٭مچھلی والا (راشدہ صدیق عباسی، چاہ سلطان، راول پنڈی)٭اللہ کے انعام یافتہ بندے (حامد رشید، لاہور) ٭میرا ہائی اسکول، ایک سوسال کا ہوگیا (واجد علی شاہین، لاہور) ٭دریا کی بیٹی (سیّد حیدر قلی، گرین ٹائون، لاہور)٭پاک چین دوستی اور اقتصادی راہ داری منصوبہ (صدیق فنکار)۔

’’برائے صفحہ متفرق‘‘

٭مصر کے سات قابلِ دید مقامات (انیسہ عائش)٭انسانی مساوات اور اسلامی تعلیمات (دانیال حسن چغتائی)٭سیمک بلوچ کون ہے؟ (عبدالغفار بگٹی، ڈیرہ بگٹی)٭تقدیر کی حقیقت +معجزہ معراج النبی ؐ (رانا اعجاز حسین چوہان) ٭رزقِ حلال کا تصوّر (ڈاکٹر محمد ریاض علیمی) حضرت سیدنا ابراہیم ؑخلیل اللہ کی آزمائش (محمد جاوید افضل علوی) ٭ والدین کا احترام (ارسلان اللہ خان، حیدر آباد)٭ یوسف کمال المعروف شکیل احمد (سیّد ذوالفقار حسین نقوی)۔